اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز اسحاق خان نے مشال یوسفزئی کی سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے خلاف توہین عدالت کیس کی کازلسٹ منسوخ ہونے کے معاملے پر ریمارکس دیے کہ ایسا کرنے سے پہلے میری عدالت کی بنیادوں میں بارود رکھ کر اڑا دیتے۔
عدالتی حکم کے باوجود بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ کروانے پر توہین عدالت کیس کی کاز لسٹ منسوخ کرنے پر عدالت کے طلب کرنے پر ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل اسلام آباد ہائیکورٹ سلطان محمود عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے سٹیٹ کونسل سے استفسار کیا جو کچھ ہوا ہے کیا آپ اس میں ملوث ہیں؟ آپ نے کس کے کہنے پر کازلسٹ منسوخ کی؟
ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں چیف جسٹس آفس سے ہدایات آئی تھیں، چیف جسٹس آفس سے کہا گیا لارجر بنچ بنا دیا ہے، اب اس کیس کی کازلسٹ منسوخ کر دیں۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے پوچھا کیس منتقلی کے لیے متفرق درخواست کس قانون کے تحت دائر کی گئی؟ کیا ریاست جج کی مرضی کے بغیر کیس لارجر بنچ کو منتقل کرنے کی حمایت کرتی ہے؟
فاضل جج نے ریمارکس دیئے یہ کرنے کی بجائے آپ میری عدالت کی بنیادوں میں بارود رکھ کر اڑا دیتے، ہم بنیادی سوالات ہی طے نہیں کر پاتے، ہر 10 سال بعد بنیادی اصولوں پر اسی مقام پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کا کہنا تھا اس سے بڑی حماقت نہیں کہ قانون کی عملداری کے بغیر معیشت ترقی کرے، یہ میری ذات کا یا میرے اختیارات کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ معاملہ ہائیکورٹ کی توقیر کا ہے، کیا اس طرح عوام کا نظام انصاف پر یقین رہے گا؟
درخواست گزار مشال یوسفزئی بولیں ہمارے ساتھ باہر یہ ہو رہا ہے تو بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کے ساتھ جیل میں کیا کرتے ہوں گے؟ عدالت نے کہا آپ وہ بات کر رہی ہیں، ہمیں تو اپنے ادارے کی فکر ہو گئی ہے، گائیڈڈ میزائل آپ کی طرف جا رہا تھا وہ اب ہماری طرف آرہا ہے۔
"آپ ایک چیز کو انا کا مسئلہ بنا کرجو کچھ کر رہے ہیں وہ ہائیکورٹ کے بخیے ادھیڑ دے گا"
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے بھی جواب طلب کر لیا اور پوچھا کیا چیف جسٹس کے پاس ایک جج کے پاس زیر سماعت کیس اس کی مرضی کے بغیر دوسرے جج کو منتقل کرنے کا اختیار ہے؟
عدالت کا کہنا تھا فرض کریں مستقبل میں ایک نہایت کرپٹ چیف جسٹس ہو تو اس کے پاس کیس اس طرح منتقل کرنے کا اختیار ہو گا؟ ایک پارٹی کے 3 کیسز ہوں، چیف جسٹس کو درخواست دیں تو زیر سماعت کیس منتقل ہو سکتا ہے؟ کیا آپ کرپشن اور اقربا پروری کے دروازے کھول رہے ہیں؟
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کا کہنا تھا یہ انصاف کی عدالت کو گمراہ کرنے کے بھی مترادف ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ رولز میں نہیں ہے کہ جج کی مرضی کے بغیر چیف جسٹس کیس ٹرانسفر کر دے، آپ ایک چیز کو انا کا مسئلہ بنا کر جو کچھ کر رہے ہیں وہ ہائیکورٹ کے بخیے ادھیڑ دے گا۔
"ریاست نے اگر فیصلہ کر لیا کہ انہوں نے انا کی جنگ جیتنی ہے تو میرا یہاں بیٹھنے کا فائدہ نہیں"
عدالت کا کہنا تھا ریاست نے اگر فیصلہ کر لیا ہے کہ انہوں نے انا کی جنگ جیتنی ہے تو میرا یہاں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں، اگر بڑے صاحب کی مرضی کہیں اور ہے تو وہ کہیں کہ میں کیس اپنے پاس لے لوں؟ جج رجسٹرار آفس کے مرہون منت ہے؟ آفس فیصلہ کرے گا کہ جج نے کیس سننا ہے یا نہیں سننا؟ کیا کاز لسٹ فیصلہ کرے گی کہ عدالت انصاف کیسے دے گی؟
ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کا کہنا تھا ہم نے چیف جسٹس آفس سے ہدایت کیلئے معاملہ بھیجا، کیس لارجر بنچ کو منتقل کرنے کا کہا گیا جس پر جسٹس سردار اعجاز کا کہنا تھا لارجر بنچ جو کارروائی کر رہا ہے اس عدالت کی کارروائی کی توہین میں کر رہا ہے، کازلسٹ منسوخ کر کے کیس ٹرانسفر کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کر رہا ہوں۔
بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان سے ملاقات نہ کرانے پر توہین عدالت کی کاز لسٹ منسوخ ہونے سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔