لاہور: (محمد اشفاق) لاہور ہائیکورٹ کے فل بینچ نے الیکشن میں دھاندلی کے مرتکب ریٹرننگ آفیسر کے فرائض سر انجام دینے والے سول جج کو نوکری سے برطرف کرنے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ درست قرار دیدیا۔
جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے قرار دیا کہ اصل نتائج کو جاری کرنے کے ایک ماہ بعد نتائج کو تبدیل کیا گیا، مختلف پولنگ سٹیشنز پر جیتنے والے امیدوار کے ووٹوں کو کم کر دیا گیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس ساجد محمود سیٹھی پر مشتمل 3 رکنی فل بینچ نے تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا، جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے فیصلے میں لکھا کہ جیتنے والے امیدوار کے ووٹس کو ہارنے والے امیدواروں میں تقسیم کر دیا گیا۔
ایک گواہ کے مطابق انکوائری شروع ہونے پر سول جج نے شکایت کنندہ سے خدا کے نام پر معافی مانگی، ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر نے گواہی دی کہ الیکشن کے ریکارڈ میں جعل سازی کی گئی۔
جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے فیصلے میں کہا کہ عدالت کے سامنے سوال تھا کہ کیا سول جج کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ ڈکلیئر ہو چکے رزلٹ کو تبدیل کر سکے؟ کیا یہ مس کنڈکٹ ہے؟ اور کیا اپیل کنندہ کو اس بنا پر سروس سے نکالا جا سکتا ہے؟۔
فیصلے کے مطابق سول جج کی جانب سے نتائج کی تیاری کے 4 دن بعد الیکشن ٹریبونلز قائم کر دیئے گئے تھے مگر سول جج نے 23 دنوں بعد نتائج تبدیل کرتے ہوئے فارم الیکشن کمیشن کو بھجوا دیئے، سول جج کی جانب سے مخالف فریق کو اس حوالے سے کوئی بھی نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔
سول جج کی جانب سے ڈی آر او کے بجائے نتائج براہ راست صوبائی الیکشن کمیشن کو بھیجے گئے، عدالت مختلف عدالتی نظیروں کے بعد موجودہ درخواست کو خارج قرار دیتی ہے۔
فیصلہ کے مطابق سول جج شیخ علی جعفر نے اپیل کے ذریعے 2015 کے دو آرڈرز کو چیلنج کیا، شیخ علی جعفر کو نوکری سے برخاست کیا گیا اور بعد ازاں نمائندگی بھی مسترد کر دی گئی۔
سول جج کو شاہ کوٹ تحصیل میں یونین کونسل کے الیکشن کے لیے ریٹرننگ افسر تعینات کیا گیا، الیکشن میں امیدوار اصغر علی اصغر کامیاب ہوا جبکہ سول جج کی جانب سے امیدوار مقبول احمد جاوید کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔
امیدوار اصغر علی اصغر نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کو ایک شکایت درج کروائی، ڈی آر او کے ایک خط پر الیکشن کمیشن نے دوبارہ نتیجہ چیک کرنے کی ہدایت جاری کر دی، الیکشن کمیشن کو اس بابت رپورٹ ارسال کی گئی جس کے بعد الیکشن کمیشن نے ایک شکایت کا اندراج کروایا۔
رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ نے مارچ 2006 میں سول جج شیخ علی جعفر کو عہدے سے برخاست کر دیا، سروس ٹریبونل نے اکتوبر 2008 میں برخاستگی کا آرڈر معطل کر دیا اور اعلیٰ عدلیہ نے ٹریبونل کا فیصلہ برقرار رکھا۔
فیصلہ میں کہا گیا کہ اعلیٰ عدلیہ نے آبزرویشن دی کہ مس کنڈکٹ کا الزام بغیر باقاعدہ انکوائری کے ثابت نہیں ہو سکتا، متعلقہ اتھارٹی نے انکوائری کے بعد سول جج کو جون 2015 میں پھر سے سروس سے خارج کردیا۔
سول جج نے محکمانہ اپیل دائر کی جسے ستمبر 2015 میں خارج کر دیا گیا، سول جج کے وکیل نے مطابق الیکشن کے معاملات میں شکایت الیکشن کمیشن کے پاس درج کروانی چاہئے۔
وکیل کے مطابق الیکشن کمیشن خود کارروائی کر سکتا ہے یا پھر سول جج کے اپنے محکمے کو شکایت بھیج سکتا ہے، وکیل کے مطابق سول جج کے خلاف شکایت ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کے ذریعے لاہور ہائیکورٹ کے سامنے آئی ہے۔