کوئی لیڈر میرٹ پر آیا نہ آئین پر عمل ہو رہا، ہر ڈویژن کو صوبہ بنانا چاہیے: میاں عامر محمود

Published On 20 August,2025 12:06 pm

لاہور: (دنیا نیوز) چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ آئین پر مکمل عملدرآمد نہیں ہو رہا، صوبوں نے مل کر ملک بنایا، ملک حکومت کی پالیسیوں سے چلتے ہیں، ہر ڈویژن کو صوبہ بنانا چاہیے۔

پاکستان کی نجی یونیورسٹیز کی نمائندہ تنظیم "ایپ سپ" کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود کا کہنا تھا کہ تمام حاضرین کا شکریہ ادا کرتا ہوں، ایجوکیشن فیلڈ میں ہم نے جو موومنٹ شروع کی اس میں چودھری عبدالرحمان کا کلیدی کردار ہے۔

"صوبے مل کر ملک بناتے ہیں"

انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان ایک فیڈریشن ہے جس کے 4 یونٹس ہیں، صوبے ملکر فیڈریشن بناتے ہیں، دنیا میں کئی فیڈریشنز ہیں، امریکا بھی ایک فیڈریشن ہے، اس ملک نے صوبے نہیں بنائے بلکہ صوبے مل کر ملک بناتے ہیں۔

میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ بھارت آزاد ہوا تو اس کے تھوڑے صوبے اور 600 ریاستیں تھیں، جن ممالک میں لوکل گورنمنٹ ہے وہاں کسی کو فیڈریشن کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔

چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت بہت سے اہم کام کر رہی ہے، عوامی مسائل کے حل کیلئے صوبے بنائے گئے ہیں، خدمت کرنے کی حکومت لوکل گورنمنٹ ہے، پبلک ویلفیئر کیلئے ہم حکومت بناتے ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ چھوٹے کاموں کیلئے صوبے بنائے جاتے ہیں، گلی محلے کے مسائل دیکھنے کیلئے لوکل گورنمنٹ بنائی جاتی ہے، ملک حکومت کی پالیسیوں سے چلتے ہیں، حکومت کی پالیسیاں ملک کو امیر اور غریب بناتی ہیں، حکومت کی ہر پالیسی آنے والی نسلوں پراثر انداز ہوتی ہے۔

"ملک بنانے کا مقصد پبلک ویلفیئر ہے"

میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ ملک بنانے کا مقصد پبلک ویلفیئر ہے، دنیا میں جمہوریت کی بہت اچھی مثالیں موجود ہیں، لیڈر ہمارے اندر سے ہی پیدا ہو گا۔

چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ ہماری معیشت خسارے میں ہے، درآمدات زیادہ اور برآمدات کم ہیں، ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم ریاست کو کیا دے رہے ہیں، ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ ریاست ہمیں کیا دے رہی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ کراچی میں نالے صاف نہیں ہو رہے، بارشوں نے کراچی اور کے پی کا کیا حال کر دیا، پنجاب کئی ممالک سے بڑا صوبہ ہے، پنجاب اکیلا 13 کروڑ کا صوبہ ہے۔

میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ ہمیں ایک سال ایسا نہیں ملے گا جس میں قرض نہیں لیا گیا ہو، پنجاب اور بلوچستان میں لوکل گورنمنٹ نہیں، کبھی بنتی ہے کبھی ٹوٹتی ہے، وفاقی، صوبائی اور لوکل گورنمنٹ یہ تین ستون ہمارے پاس ہیں، روزمرہ زندگی سے جڑے مسائل حل کرنے کیلئے لوکل گورنمنٹ ہوتی ہے۔

چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ جن صوبوں میں لوکل گورنمنٹ موجود ہے انہیں وفاق میں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی، ہم لوکل گورنمنٹ کے وجود سے محروم ہیں، حکومت سمجھتی ہے کہ ہم اقتدار میں آ گئے جمہوریت آگئی، پہلے ادوار میں بادشاہ خوشحال تھے، عوام خوشحال نہیں تھی۔

انہوں نے کہا ہے کہ ہر ڈویژن کو صوبہ بنانا چاہیے، زیادہ صوبے بنانے سے خرچ نہیں بڑھے گا، چھوٹے صوبے بننے سے مسائل حل ہوں گے، چھوٹی حکومت کے کام عوام کو نظر بھی آئیں گے، صوبہ چھوٹا ہونے سے کارکردگی کو مانیٹر بھی کیا جا سکے گا۔

"دبئی آج جس مقام پر ہے وہاں کراچی کو ہونا چاہیے تھا"

میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ بہاولپور، ڈی جی خان اور ملتان کو الگ الگ صوبہ بننا چاہیے، سندھ میں کراچی کو الگ صوبہ بنا دینا چاہیے، کراچی کو الگ صوبہ بنا دیا جائے تو حالات بہت بہتر ہو جائیں گے، دبئی آج جس مقام پر ہے وہاں کراچی کو ہونا چاہیے تھا۔

چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں نصیر آباد، سبی، ژوب، قلات، مکران اور کوئٹہ کو صوبہ بنایا جا سکتا ہے، بلوچستان کی آبادی کم اور قدرتی وسائل بہت زیادہ ہیں، اسی طرح ڈی آئی خان، کوہاٹ، مالا کنڈ، مردان اور پشاور کو صوبہ بننا چاہیے۔

انہوں نے کہا ہے کہ صوبوں میں محکموں کی تعداد بھی کم کرنے کی ضرورت ہے، کچھ محکمے کام کرنے والے جبکہ باقی غیر ضروری ہیں، ہر صوبے میں 16 محکمے ہونے چاہئیں، صوبے میں 16 سے زیادہ محکموں کی ضرورت نہیں ہوتی۔

"لاہور میں بیٹھ کر 50 ہزار سکولوں کو مانیٹر نہیں کیا جا سکتا"

میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ لاہور میں بیٹھ کر پنجاب کے 50 ہزار سکول نہیں چلائے جا سکتے، پنجاب حکومت نے 10 ہزار سکول پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کیے ہیں، حکومت سکول جانے والے ہر بچے پر 4400 روپے خرچ کر رہی ہے، ہمارے پاس سکولز، کالجز اور ہسپتال ہیں لیکن کام نہیں ہو رہا۔

چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ بلوچستان اور کے پی میں 10 سال میں لٹریسی ریٹ نیچے چلا گیا، پنجاب میں صرف 5 فیصد لٹریسی ریٹ میں اضافہ ہوا، پاکستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، پاکستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 36 فیصد ہے، سرکاری سکولوں میں سہولتیں زیادہ لیکن تعلیمی معیار نہیں، اچھے پرائیویٹ سکول کی فیس حکومتی اخراجات سے کم ہے، پنجاب میں 2001 کے بعد اساتذہ کی بھرتیاں میرٹ پر ہوئیں، کوئی وزیر لاہور میں بیٹھ کر 50 ہزار سکولوں کو مانیٹر نہیں کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ چھوٹے صوبے بننے سے جوڈیشل سسٹم ٹھیک ہوگا، چوری اور ڈکیتی کے کیسز کی سزاؤں کی شرح صفر ہے، قانون سازی کرنے والے گلیاں بنانے میں مصروف ہیں، ہم جنت نہیں ایسا سسٹم مانگ رہے ہیں جس سے عوامی مسائل حل ہوں، چھوٹے صوبے بنانے سے اخراجات میں کمی ہو گی۔

میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ قوانین میں سقم دور کرنے کی ضرورت ہے، لاہور میں ایک جج کے پاس اوسطاً 796 کیسز ہیں۔

"33 صوبے بننے سے ہمیں نئی لیڈرشپ ملے گی"

چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ کسی صوبائی حکومت کو بلدیاتی نظام منظور ہی نہیں، ہم ایسا سسٹم مانگ رہے ہیں جس سے عوامی مسائل حل ہوں، بروقت انصاف ملے تو صوبے بنانے پر اخراجات میں کوئی حرج نہیں، اعلیٰ سطح پر پالیسی میکنگ ہوتی ہے، آئی جی صوبے کو نہیں چلاتا، چھوٹے صوبوں میں کمشنر ہی چیف سیکرٹری، آر پی او اور آئی جی ہوگا۔

انہوں نے کہا ہے کہ کسی بھی صوبائی حکومت نے موثر لوکل گورنمنٹ نہیں بنائی، پولیٹیکل لیڈرشپ ہمیشہ مڈل کلاس سے آتی ہے، 33 صوبے بننے سے ہمیں نئی لیڈرشپ ملے گی، ایک لیڈر آیا اس نے کہا میں تبدیلی لاؤں گا، کسی نے اس سے نہیں پوچھا کہ کیسے تبدیلی لائے گا؟

میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ ایک یا دو دن میں تبدیلی نہیں آئے گی، عوام نے تبدیلی کیلئے ووٹ دیا لیکن کچھ تبدیل نہیں ہوا، جس کو ووٹ دیں اس سے تبدیلی کا مطالبہ کریں، کسی لیڈر کی تقریر سیاسی لگاؤ کے باعث نہیں سننی چاہیے، یہ دیکھنا چاہیے کہ تقریر کرنے والا لیڈر عوام کیلئے کیا کر سکتا ہے۔

چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ کوئی قوم شارٹ کٹ سے ترقی نہیں کرتی، قوموں کی زندگیوں میں شارٹ کٹ نہیں ہوتے، شارٹ کٹ نہیں محنت سے ہی قومیں ترقی کرتی ہیں، جمہوری نظام میں عوام کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔

"کسی کو پکڑنا یا چھوڑ دینا یہ ہماری ترجیحات نہیں"

انہوں نے کہا ہے کہ سسٹم اور گورننس ٹھیک ہونے سے زیادہ فائدہ عوام کو ہوگا، گڈ گورننس سے زیادہ فائدہ نوجوانوں کو ہوگا، کسی کو پکڑنا یا چھوڑ دینا یہ ہماری ترجیحات نہیں، یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آپ کی ترجیحات کیا ہیں، صوبائی یا لسانی بنیاد پر ترجیحات درست نہیں۔

میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ میں نے سیاست کی، لاہور کا میئر منتخب ہوا، سیاسی کیریئر کا آغاز کونسلر سے شروع کیا، لاہور کا ناظم بنا، سیاست کو اتنے قریب سے دیکھا کہ مجھے لگا سیاست نہیں کرنی چاہیے، سیاست کے آخری زینے تک گیا، سمجھ آ گئی کہ سیاست نہیں کرنی۔

چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس پیسے کی کمی نہیں، سب کو ترقی کے یکساں مواقع دینا ہوں گے، بھارتی وزیراعظم نچلی سطح سے اوپر آیا، 3 میں سے 2 بھارتی صوبے خالصتان کو سپورٹ نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا ہے کہ کوئی نظام لیکر آیا ہوں نہ کوئی نظام نافذ کرنا چاہتا ہوں، آج کی گفتگو کا مقصد صرف آگاہی پیدا کرنا ہے، چھوٹے صوبے بنانے کی بات نواز شریف اور عمران خان سے بھی کی تھی، زیادہ صوبوں کی تجویز حکمرانوں کیلئے بھی اچھی ہے۔

"ہم جذباتی وابستگی کے باعث ووٹ ڈالتے ہیں"

میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ ہم جذباتی وابستگی کے باعث ووٹ ڈالتے ہیں، ہم ووٹ ڈالتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ لیڈر ہمارے لیے کیا کر سکتا ہے، چین میں کوئی شخص براہ راست حکمران نہیں بن سکتا۔

چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا ہے کہ جلاوطنی کے وقت نواز شریف مقبول ترین حکومت کو لیڈ کر رہے تھے، ترکیہ میں مارشل لا لگا، حکمران کو پھانسی بھی دی گئی، مارشل لا کے بعد ترکیہ میں ایک لیڈر آیا اور عوام کی خدمت کی، ترکیہ کے عوام نے اس لیڈر کو بھرپور سپورٹ بھی کیا۔

انہوں نے کہا ہے کہ پرفارم کرنے والے لیڈر کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا، سیاسی جماعتوں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہیں آج تک موقع نہیں ملا، کونسا لیڈر ہے جس نے عوام کو آگاہی دی؟ یہ نظام عوام کی طاقت سے چل رہا ہے، جس نے محنت کی اس کو ضرور ترقی کرنی چاہیے، کسی سے جھوٹ بول کر کبھی ترقی نہیں کی جا سکتی۔

"ریاست مدینہ میں مشاورت سے بہترین فیصلے کیے جاتے تھے"

میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ ہر لیڈر نے اپنی حکومت بنانے کیلئے کچھ نہ کچھ کیا ہے، معاشرے کی ترقی اور تنزلی مجموعی طور پر ہوتی ہے، ریاست مدینہ میں ایسے لوگ تھے جن کی نیکی اور تقویٰ بے مثال تھی، ریاست مدینہ میں مشاورت سے بہترین فیصلے کیے جاتے تھے۔

چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود نے اپنی تقریر کے آخر میں کہا ہے کہ انفرادی اصلاح سے معاشرتی اصلاح ممکن ہے، جتنا چھوٹا سسٹم ہوگا اتنا آپ کی نظر میں ہوگا، فیڈرل حکومت دفاع اور تجارت کے نظام کو دیکھ رہی ہے، نچلی سطح پر مسائل کے حل کیلئے صوبے کام کرتے ہیں، پاکستان میں صوبے آبادی یا رقبے کے لحاظ سے نہیں بنائے گئے، صوبے کم ہونے سے گورننس کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، اب اصلاح وقت کی ضرورت ہے۔