جب شاہین امرتسر راڈار پر قہر بن کر ٹوٹے!

Published On 07 September,2025 12:24 pm

لاہور: (فاروق حارث عباسی) 1965ء میں پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل نور خاں تھے جنہیں اللہ نے بے شمار خوبیوں سے نواز تھا، پاکستانی سکواڈرن لیڈر لڑائی کیلئے بے قرار تھے۔

اس عظیم ایئر مارشل کی سربراہی میں پاک ایئر فورس نے کمال فن کا مظاہرہ کیا اور 17 روزہ اس جنگ میں بری فوج کی بھرپور مدد کی، دشمن کے 129 لڑاکا جنگی طیاروں کو تباہ کیا جبکہ پاکستان کے صرف 19 جنگی طیاروں کو نقصان پہنچا، 7ستمبر 1965ء کو پاک ایئر فورس کے بہادر نڈر اور ماہر سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم کا ایک ریکارڈ ہے۔

پاک ایئر فورس کے بہادر سکوارڈرن لیڈر سیسل چوہدری، سرفراز رفیقی، ظفر احمد چوہدری اور دیگر کئی ایک نے بھارت کے ہوائی اڈے پلواڑہ، جودھپور، آگرہ پر بار بار بمباری کی، ایئر فورس کے جنگی جہاز سرگودھا ایئر بیس سے اڑتے تھے اور آگرہ دہلی، بمبئی اور دیگر بھارتی ہوائی اڈوں پر تباہی مچا دیتے تھے، بھارت پریشان تھا کہ کس قوم کو چھیڑ بیٹھے ہیں پاک ایئر فورس کو جب بھی اطلاع ملتی پلک جھپکتے دشمن پر جھپٹ پڑتی۔

پاک فضائیہ نے اس جنگ کے دوران بیشمار کارنامے سر انجام دیئے جن میں سے ایک امرتسر راڈار کو تباہ کرنے کا بھی ہے، جسے پاک فضائیہ ’’ٹارگٹ الفا‘‘ کے نام سے پکارتی تھی، یہ انڈین فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کی رہنمائی کرنے کے علاوہ بھارتی فضائی دفاع کے نظام کو حملوں کی پیشگی اطلاع بھی بہم پہنچاتا تھا، امرتسر راڈار بہت ہی نازک دفاعی پوزیشن پر واقع تھا، اسی وجہ سے اس کے گرد چند میل کے دائرے کی شکل میں طیارہ شکن توپیں نصب تھیں اور ہندوستان کے ایئرفیلڈ پٹھان کوٹ ، آدم پور، ہلواڑہ بھی امرتسر کے اطراف ہی واقع تھے۔

انڈین ایئرفورس کا یہ راڈار کسی طے شدہ مقام پر محدود نہیں تھا، اس کی بڑی لوہے کی جالی اور تھال کی شکل کے ایریل آسانی سے چھپائے جا سکتے تھے، یکم ستمبر سے 23 ستمبر تک پشاور کے سکوارڈن نمبر 24 نے امر تسر راڈار کے صحیح وقوع کی تلاش میں 48 سے زائد پروازیں کیں، 7 ستمبر کو الفا راڈار کے محل وقوع کی تلاش کیلئے جائزہ فوٹو گراف کا طریقہ استعمال کیا گیا، تلاش کئے جانے والے اس راڈار کی صدائے شناخت فش آئل تھی۔

اس جاسوسی کے نتیجے میں پہلا حملہ کیا گیا جب کمانڈر انچیف کی طرف سے مختصر بریفنگ کے بعد سرگودھا کے 4 سیبر سرحد کے اس پار روانہ ہوئے، خراب موسم کے باوجود یہ سیبر اپنے نقطہ شناخت سے راستہ متعین کرنے کے بعد امرتسر کمپلیکس کے ایک حصہ کے اوپر پہنچ گئے، اس کارروائی کی قیادت فلائٹ لیفٹیننٹ بھٹی کر رہے تھے، ان کے نمبر ٹو انتہائی جوشیلے منیر نے حملے کیلئے سائٹ کے اوپر اپنا طیارہ بلند کیا لیکن بھارتی طیاروں کے آنے پر یہ حملہ ختم کر دیا گیا۔

سکوارڈن لیڈر منیر الدین احمد پاک فضائیہ کے مقبول ترین افسروں میں سے ایک تھے، اپنی روایتی ہکلاہٹ کی وجہ سے وہ پرواز کیلئے ناموزوں سمجھے جاتے تھے، لاہور سے کچھ دور سرحد کے پار دشمن کے امرتسر راڈار سٹیشن کے بارے میں ان کے ذہن میں ایک جنون طاری تھا، اس بڑی تنصیب کو تباہ کرنے کے بارے میں ان کی کیفیت اتنی شدید تھی کہ سرگودھا میں لوگ امرتسر راڈار کو منیر کا راڈار کہتے تھے۔

آخر کار ’’الفا راڈار‘‘ کے جائے وقوع کا علم کسی نہ کسی طرح ہو ہی گیا اور سرگودھا کے سیبر پھر 11 ستمبر کو اس پر حملہ کیلئے پابند کئے گئے، کمانڈر انچیف نے اس مرحلہ پر بموں کے استعمال کو مسترد کر دیا تھا کیونکہ راڈار امرتسر شہر کے بہت قریب واقع تھا اور بموں کے استعمال سے شہری آبادی کو جانی و مالی نقصان پہنچ سکتا تھا، ونگ کمانڈر انور شمیم کی قیادت میں چار سیبر تعینات کئے گئے، چار سیبر طیارے صبح آٹھ بجے نچلی سطح کی پرواز کے ساتھ امرتسر روانہ ہوئے۔

ہد ف کی شناخت میں ہندوستانی طیارہ شکن توپوں کی فائرنگ سے کچھ مدد مل گئی اور جب سیبر کی پہلی جوڑی نے بلند ہونا شروع کیا تو فلائٹ لیفٹیننٹ بھٹی نے آر ٹی پر آواز دی ’’ہدف ‘‘ ٹھیک بائیں ہاتھ کی سیدھ میں‘‘۔ ونگ کمانڈر شمیم کا جواب آیا ’’قائد اور نمبر ٹو (منیر) بلند ہو رہے ہیں‘‘ اور اس وقت تک ہدف کا علاقہ گولوں سے جہنم بن چکا تھا، صرف چند سیکنڈ میں آر ٹی پر آواز آئی ’’ نمبر ٹو پر حملہ ہوگیا‘‘، فلائٹ لیفٹیننٹ بھٹی نے بعد میں اس مشن کے بارے میں بتایا،’’نمبر ٹو منیر ہی تھا، جب میں نے نیچے دیکھا اس جگہ جہاں ان کا سیبر پھٹا تھا ’آگ کے تین گولے فضا میں اچھل رہے تھے، اسی شام ہندوستانیوں نے اطلاع دی کہ منیر ملبے میں بے جان پایا گیا‘‘۔

ونگ کمانڈر شمیم نے منیر کی شہادت کے باوجود راڈار کے ایریل پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور پھر نیچی پرواز کے ساتھ باہر نکلنے سے پہلے بقیہ دو سیبر بھی راڈار پر اپنی تمام گولیاں صرف کرنے کیلئے نیچے آگئے، راڈار کو جزوی نقصان پہنچانے میں کامیاب ہونے کے بعد طیارے واپس پلٹے، لیکن راڈار کو مکمل طور پر تبا ہ کرنا ضروری تھا اور اس کیلئے بموں کا استعمال ہی ایک اہم ذریعہ تھا۔

12 ستمبر کو حملے کی پھر تاریخ طے ہوئی اور بھگتانوالہ پر طیاروں کے حملے کا وقت شام کا مقرر کیا گیا، اس موقع پر امرتسر حملے کیلئے بریفنگ خود کمانڈر انچیف ایئر مارشل نور خاں نے کی، انہوں نے ٹھیک ٹھیک نشانے بازی پر زور دیا تاکہ شہری آبادی کو نقصان نہ پہنچے، ونگ کمانڈر لطیف کی قیادت میں فارمیشن حملے کی ہدایات کے مطابق بلندی سے غوطہ مار کر بمباری کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، منصوبہ کامیاب رہا ایک بی57 طیارے نے اپنا سات ہزار پونڈ کا پورا وزن ہدف کے علاقے میں گرادیا۔

طیارہ شکن توپوں کی جوابی کارروائی کے باوجود تمام طیارے راڈار کو تباہ کرنے کے بعد بحفاظت واپس لوٹ آئے، حقیقت میں جہاں تک پاک فضائیہ کا تعلق ہے ’’بی ۔57 طیاروں ‘‘کے حملوں نے امرتسر راڈار کی جنگ کو آخری نہج پر پہنچا دیا تھا اس لئے فش آئل کے خلاف مزید کارروائی نہیں کی گئی، سیبر طیاروں کے مزید حملوں کے بعد راڈار کو نقصان تو پہنچا لیکن بھارتی اس کی مزید مرمت کر کے اس کو استعمال کرتے رہے۔

اس کے بعد جموں راڈار کو استعمال کرنا شروع کیا گیا، پاک فضائیہ کے سیبر طیاروں نے کم از کم دو بم ہدف کے احاطے کے اندر گرائے اور جموں راڈار کی نشریات بھی بند ہوگئیں، اس طرح بھارتی فضائیہ کی کارروائیوں میں ان دو اہم راڈاروں کا عمل دخل ختم ہو کر رہ گیا جس کی وجہ سے بھارتی فضائیہ کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔

فاروق حارث عباسی معروف تجزیہ نگار اور محقق ہیں، ان کے مضامین مؤقر جرائد کی زینت بنتے رہتے ہیں۔