پنجاب: سیلابی ریلے نے جلالپور پیروالا کو گھیر لیا، ہنگامی بنیادوں پر لوگوں کا انخلاء

Published On 11 September,2025 09:08 am

لاہور، ملتان، بہاولپور: (دنیا نیوز) پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں، دریائے چناب کے بپھرنے سے ملتان کی تحصیل جلالپور پیر والا کو چاروں جانب سے بڑے سیلابی ریلے نے گھیر لیا، ہنگامی بنیادوں پر لوگوں کا انخلاء جاری ہے۔

تازہ واقعات میں سیلاب متاثرین کی کشتیاں الٹ گئی ہیں جس سے کم از کم 3 افراد جاں بحق اور 9 لاپتہ ہو گئے، ملتان سے نوجوان کی لاش برآمد ہو گئی، 21 لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی رقبہ پر فصلوں کا نقصان ہوا ہے۔

سی پی او ملتان صادق علی ڈوگر کا کہنا ہے جلال پور پیروالا کو بچانے کیلئے بنائے گئے عارضی بند پر پانی کا دباؤ مسلسل برقرار ہے، شہر سے تیزی سے آبادی کو نکالا جا رہا ہے۔

صادق علی ڈوگر کا کہنا ہے کہ جلال پور پیروالا کے چاروں اطراف پانی ہے، تحصیل جلالپور کے 90 فیصد نواحی علاقے زیر آب آچکے ہیں۔

جلالپور پیر والا کے 138 موضع جات زیر آب آ چکے ہیں۔

ادھر اوچ شریف کے علاقہ بھکری کے قریب پرائیویٹ کشتی سیلابی پانی میں الٹ گئی ، کشتی میں سوار 4 افراد سیلابی پانی میں ڈوب گئے جنہیں ریسکیو اہلکاروں نے بروقت بچا لیا۔

بہاولنگر کی دریائی پٹی میں 145 دیہات زیر آب

دریائے ستلج میں بھکاں پتن کے مقام پر اونچے درجے کے سیلاب سے پانی راجیکا، بہادرکا شرقی اور قاسمکا کے قریب بند ٹوٹنے سے پانی مزید آبادیوں میں داخل ہو گیا۔

دریائی پٹی کے 150 کلومیٹر کے علاقے میں 145 موضع جات بری طرح متاثر ہوئے ہیں، ایک لاکھ بیس ہزار ایکڑ سے زائد کھڑی فصلیں ڈوب گئیں، متعدد سڑکیں سیلابی ریلے میں بہہ گئیں، کئی دیہات کا بہاولنگر سے زمینی راستہ منقطع ہے، دریائی بیلٹ میں 34 سکول غیر معینہ مدت کیلئے بند ہیں ۔

متاثرہ علاقوں میں کھانے پینے کی اشیاء، ادویہ اور جانوروں کے لیے چارے کی قلت کا سامنا ہے۔

ادھر ملتان کے موضع گردیز پور میں سیلابی پانی سے لاش برآمد ہوئی جس کی شناخت 25 سالہ محمد جعفر کے نام سے ہوئی ہے، جعفر دو روز قبل جانوروں کو بچاتے ہوئے سیلابی پانی میں ڈوب گیا تھا۔

کشتی حادثے

خان بیلہ اور موہانہ سندیلہ میں سیلاب متاثرین کی کشتیاں الٹی ہیں، موہانہ سندیلہ میں کشتی الٹنے سے چار سالہ بچہ جاں بحق ہوا، 18 افراد کو زندہ نکال لیا گیا جبکہ 9 افراد کی تلاش کے لیے ریسکیو آپریشن ہو رہا ہے۔

خان بیلہ میں سیلاب متاثرین کی الٹنے والی کشتی میں 20 افراد سوار تھے جن میں سے 2 ماہ کا بچہ ڈوب کر جاں بحق ہو گیا۔

ادھر مظفرگڑھ کی تحصیل علی پور کے علاقے لتی ماڑی میں بھی سیلاب متاثرین کی کشتی الٹنے کا واقعہ پیش آیا۔

ریسکیو حکام کے مطابق کشتی میں 10 سے زائد افراد سوار تھے، اسی دوران ایک شخص نے کشتی میں لٹکنے کی کوشش کی جس سے کشتی توازن کھو بیٹھی اور الٹ گئی، خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور تمام افراد کو بحفاظت ریسکیو کر لیا گیا۔

دوسری طرف بہاولنگر کی بستی کلر والی کے مقام پر دریائے ستلج میں 12 سالہ بچہ ڈوب کر جاں بحق ہوگیا۔

علاوہ ازیں ترنڈہ محمد پناہ کے علاقے نور والا میں کشتی حادثہ میں جاں بحق افراد کی تعداد مزید 2 لاشیں ملنے کے بعد 8 ہو گئی، ڈوبنے والے ایک شخص کی لاش کی تلاش تاحال جاری ہے، جاں بحق ہونے والوں میں 3 بچے، 4 خواتین اور ایک مرد شامل ہے۔

اوچ شریف روڈ پر شگاف ڈال دیا گیا

سیلاب سے ملتان کے قریب جلال پور شہر کو بچانے کے لیے اوچ شریف روڈ پر شگاف ڈال دیا گیا، حکام کے مطابق جلال پور شہر کو بچانے کے لیے بنائے گئے عارضی بند پر پانی کا دباؤ کم نہیں ہو رہا تھا۔

لیاقت پور نوروالا میں سیلاب سے تباہی

 رحیم یارخان کی تحصیل لیاقت پور نوروالا میں سیلاب نے تباہی مچا دی۔

لیاقت پور نوروالا میں کئی دہائیوں سے خشک دریائی علاقے میں دریائے چناب واپس آیا تو افراتفری مچ گئی، جس کے باعث ہنگامی بنیادوں پر مکینوں کا انخلا کیا گیا۔

علاقے میں ریسکیو آپریشن کرتے ہوئے ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔

انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سیلاب متاثرین کی ہرممکن مدد کی جارہی ہے، اولین ترجیح انسانی جانوں کا تحفظ، مال مویشی اور مالی نقصان سے بچانا ہے۔

ہیڈ پنجند کے مقام پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دریائے چناب میں ہیڈ پنجند کے مقام پر انتہائی اونچے درجے کی سیلابی صورتحال کا سامنا ہے اور یہاں پانی کی سطح میں ایک بار پھر اضافہ ہو رہا ہے۔

صوبہ پنجاب میں فلڈ فارکاسٹنگ ڈویژن کی جانب سے جاری ہونے والی تفصیلات کے مطابق دریائے چناب میں ہیڈ پنجند کے مقام پر پانی کی سطح چھ لاکھ 68 ہزار کیوسک سے زیادہ ہے جو سمکہ چاچڑاں کی جانب بڑھ رہا ہے۔

واضح رہے کہ اس مقام پر گزشتہ تین روز سے پانی کے اخراج میں کمی آ رہی تھی جو مگر گزشتہ رات سے پانی کی سطح پھر سے بلند ہورہی ہے۔

اسی طرح دریائے سندھ میں تونسہ بیراج کے مقام پر بھی سمکہ چاچڑاں کی جانب 2 لاکھ کیوسک کے قریب سیلابی ریلا بڑھ رہا تھا۔

پنجاب کے بڑے دریا چناب میں تریموں بیراج کی صورتحال کی بات کی جائے تو وہاں گزشتہ تین روز کے دوران پانی کے اخراج میں کمی واقع ہوئی ہے، اس وقت تازہ ترین صورتحال میں ہیڈ پنجند کی جانب ایک لاکھ 88 ہزار کیوسک سے کُچھ زیادہ کا ایک ریلا سندھ کی جانب بڑھ رہا ہے۔

دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا کے مقام پر اب بھی اونچے درجے کی سیلابی صورتحال برقرار ہے جہاں پانی کی سطح اس وقت ایک لاکھ 82 ہزار کیوسک سے زیادہ ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ تین روز سے مسلسل بھارت کی جانب سے دریائے ستلج میں پانی چھوڑنے کا سلسلہ جاری ہے۔

زرعی نقصانات

دوسری طرف پنجاب میں سیلاب سے زرعی معیشت کو شدید جھٹکا، 21 لاکھ 25 ہزار 838 ایکڑ زرعی رقبہ متاثر ہوگیا۔

کپاس کی 1 لاکھ 10 ہزار 850 ایکڑ فصل پانی میں بہہ گئی، چاول کی 9 لاکھ 70 ہزار 929 ایکڑ فصل زیرِ آب آگئی، مکئی کی 1 لاکھ 86 ہزار 419 ایکڑ فصل برباد ہوگئی۔

گنے کی 2 لاکھ 20 ہزار 344 ایکڑ فصل سیلاب سے تباہ ہوئی، سیلاب سے 4 لاکھ 500 ایکڑ پر چارے کی فصل کو بھی نقصان پہنچا، سبزیوں کی 1 لاکھ 15 ہزار 260 ایکڑ فصل برباد ہوئی۔

پنجاب سے ریلے سندھ میں داخل

پنجاب سے آنے والے سیلاب کے ریلے سندھ میں داخل ہو گئے ہیں، سکھر بیراج پر درمیانے درجے کا سیلاب ڈکلیئر کیا گیا ہے۔

نو لاکھ گنجائش کے سکھر بیراج سے چار لاکھ کا ریلا گزر رہا ہے۔

دریائے سندھ گڈو بیراج اور سکھر بیراج کے مقام پر پانی کی سطح میں ایک مرتبہ پھر سے اضافہ ہوگیا ہے، پنوعاقل کچے علاقے میں درمیانی درجے کا سیلاب ہے، کچے کے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے پاکستان نیوی کے اہلکار ریسکیو کرنے میں مصروف ہیں۔

سندھ میں گڈو بیراج پر 4 لاکھ 95 ہزار کیوسک کا ریلا پہنچ گیا ہے۔

تریموں کے مقام پر پانی کی آمد و اخراج 2 لاکھ 60 ہزار کیوسک جبکہ کوٹری بیراج پر 2 لاکھ 57 ہزار کیوسک ریکارڈ کی گئی ہے۔

پنجاب کے دریاؤں کی صورتحال

پنجاب میں ہیڈ پنجند اور ہیڈ سدھنائی پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے جس کے باعث پانی کی آمد و اخراج 6 لاکھ 60 ہزار کیوسک ریکارڈ کی گئی ہے۔

لیاقت پور میں بھی اونچے درجے کا سیلاب ہے جہاں 35 موضع جات زیر آب آگئے ہیں جبکہ 80 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔

ادھر جلال پور پیر والا کو گیلانی بند میں شگاف ڈال کر سیلاب سے بچا لیا گیا ہے۔ بریچنگ سے موضع بہادر پور، بستی لانگ سمیت متعدد موضع جات زیر آب آگئے ہیں۔

ڈپٹی کمشنرکا کہنا ہے ان علاقوں میں آبادی کم اور زرعی رقبہ زیادہ ہے۔