مغربی سرحد کے متعلق بڑے فیصلے

Published On 30 October,2025 01:09 pm

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) پاکستان افغان طالبان کی پالیسیوں کے باعث افغانستان سے متعلق اہم فیصلے کرنے پر مجبور ہو چکا ہے، 19 اکتوبر کو قطر کے دارلحکومت دوحہ میں ہونے والے معاہدے کے بعد استنبول میں 25 اکتوبر کو چار روزہ فالو اَپ مذاکراتی دور ہوا جو 55 گھنٹے سے زائد وقت پر محیط تھا۔

پاکستان، قطر اور ترکیہ نے بھرپور کوشش کی کہ بات چیت سے پاک افغان طالبان ایشو کو حل کیا جائے مگر بات چیت کا یہ عمل ناکام ہوگیا جس کے بعد پاکستان کی جانب سے آئندہ کا لائحہ عمل جاری کیا گیا ہے، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے مذاکراتی عمل کے ناکام ہونے کا باقاعدہ اعلان کیا اور کہا کہ پاکستان نے افغان طالبان سے بھارتی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کی سرحد پار دہشت گردی پر بار ہا احتجاج کیا۔

پاکستان نے افغان طالبان حکومت سے دوحہ معاہدے کے تحریری وعدوں پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا، افغان طالبان کی جانب سے پاکستان مخالف دہشت گردوں کی مسلسل حمایت رکوانے پر پاکستان کی کوششیں بے سود رہیں، عطا تارڑ نے کہا کہ افغان طالبان قیادت، افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں دھکیلنا چاہتی ہے، پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے عوام کے امن و خوشحالی کیلئے قربانیاں پیش کی ہیں، ہم نے افغان طالبان کے ساتھ متعدد مذاکرات کئے مگر افغان فریق نے پاکستان کے نقصانات سے بے نیازی دکھائی۔

اب چار برس گزرنے کے بعد پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے مگر ایک بار پھر قطر اور ترکیہ کی درخواست پر پاکستان نے امن کیلئے ایک موقع دیا اور دوحہ کے بعد استنبول میں چار روز تک مذاکراتی عمل جاری رہا، دوحہ اور استنبول میں مذاکرات کا واحد ایجنڈا دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین کے استعمال کو روکنا تھا۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق مذاکرات کے دوران کئی مواقع ایسے آئے جب افغان طالبان کے وفد نے پاکستان کے منطقی مطالبات تسلیم کئے، افغان وفد اور میزبان ممالک نے پاکستان کے شواہد تو تسلیم کر لئے مگر دوسرے فریق نے کوئی یقین دہانی نہ کرائی، مذاکرات کا سب سے بڑا مدعا فتنہ الخوارج یعنی تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی تھا جو افغان سائیڈ کی ذمہ داری تھی مگر حیران کن طور پر افغان طالبان اس معاملے پر ٹال مٹول اور حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے۔

کبھی کہتے رہے کہ ٹی ٹی پی اور دہشت گردی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی تو کبھی یہ تجویز دیتے رہے کہ پاکستان براہ راست اُن سے بات چیت کرے، مگر پاکستان کی جانب سے ان تجاویز کو رد کیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ چونکہ ٹی ٹی پی افغان سرزمین سے نہ صرف آپریٹ کر رہی ہے بلکہ اسے سہولت کاری بھی حاصل ہے ،ان کی سرپرستی چھوڑی جائے اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

افغان طالبان کو کہا گیا کہ آپ اس بات کی گارنٹی دیں کہ آپ کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی مگر وہ کسی قسم کی تحریری ضمانت دینے سے گریزاں نظر آئے، انہیں بتایا گیا کہ اگر آپ کی جانب سے اس بات کی ضمانت نہیں دی جائے گی تو پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے عناصر کے افغان سرزمین پر موجود ٹھکانوں پر ہمیں کارروائی کرنی پڑے گی، پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اور ناقابلِ تردید شواہد مذاکرات کے فریقین کے سامنے رکھے جنہیں طالبان نے بھی تسلیم کیا۔

مذاکرات کے دوران تین مرتبہ تحریری معاہدے یا ضمانت کی دستاویزات تیار کی گئیں، حیران کن طور پر ان دستاویزات میں افغان طالبان کے مطالبے پر تین مرتبہ تبدیلیاں بھی کرائی گئیں، جب بھی طالبان وفد کابل سے ٹیلی فونک رابطہ کر کے ہدایات لیتا تو اس کے بعد دستاویزات پر دستخط کرنے سے مکر جاتا جس پر قطر اور ترکیہ بھی حیران ہوئے کہ افغان وفد کا طرز عمل کتنا غیر ذمہ دارانہ ہے۔

25 اکتوبر کو پہلے ہی روز یہ طے ہوا کہ مذاکراتی عمل تین روز تک جا سکتا ہے، تین روز بعد یعنی 28 اکتوبر کو مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوئے تو قطر اور ترکیہ نے ایک مرتبہ پھر فائنل راؤنڈ کا انعقاد کرایا مگر پاکستان کو اندازہ ہو چکا تھا کہ افغان طالبان کسی اور کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اور وہ پاکستان، افغانستان اور خطے کے امن و استحکام کے مفاد میں بات نہیں کرنا چاہتے، افغان طالبان کی جانب سے اُلٹا پاکستان پر الزام تراشی کرنے کی کوشش کی گئی اور ایسی ضمانتیں مانگی گئیں جن کا پاکستان سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ چار روز کے طویل مذاکراتی عمل کو کسی قابلِ عمل نتیجے پر نہ پہنچایا جا سکا، مذاکرات کی ناکام کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے کہا کہ پاکستان کے عوام کی سلامتی قومی ترجیح ہے اور حکومت دہشت گردی کے خلاف ہر ممکن اقدامات کرتی رہے گی، حکومت پاکستان دہشت گردوں، ان کے ٹھکانوں اور سہولت کاروں کو نیست و نابود کرنے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔

اس کے چند گھنٹوں بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے بیان جاری کیا، انہوں نے کہا کہ طالبان رجیم کو ختم کرنے یا انہیں غاروں میں چھپنے پر مجبور کرنے کیلئے پاکستان کو اپنی پوری طاقت استعمال کرنے کی ضرورت نہیں، اگر ضرورت پڑی تو ہم انہیں تورا بورا جیسے مقامات پر شکست دے کر لوگوں کیلئے مثال بنا سکتے ہیں جو اقوام عالم کیلئے ایک دلچسپ منظر ہوگا، اگر افغان طالبان افغانستان اور اس کے عوام کو تباہ کرنے پر بضد ہیں تو پھر جو ہونا ہے وہ ہوگا، انہوں نے کہا کہ اگر طالبان رجیم لڑنے کی کوشش کرے گا تو دنیا دیکھے گی کہ ان کی دھمکیاں صرف دکھاوا تھیں۔

مذاکراتی عمل ناکام ہونے کے بعد وزیر اطلاعات و نشریات اور وزیر دفاع کے بیانات بتا رہے ہیں کہ ہم طے کر چکے ہیں کہ اب افغان سرزمین استعمال ہونے کی صورت میں پاکستان سرحد پار بھرپور کارروائیاں کرنے کیلئے تیار ہے جس کے ذمہ دار افغان طالبان ہوں گے، آنے والے دنوں میں پاکستان کے مغربی بارڈر پر صورتحال مزید کشیدہ ہوتی نظر آ رہی ہے، پاکستان حساب لگا چکا ہے کہ اس مشکل چیلنج سے کیسے نمٹنا ہے اور سرحد پار دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو کیسے نشانہ بنانا ہے۔

گزشتہ ہفتوں میں کابل، قندھار اور پکتیکا پر پاکستانی سٹرائیکس نے ٹی ٹی پی کی بڑی قیادت کو نشانہ بنایا اور یہ اب تک کی بڑی کارروائیاں تھیں، پاکستان پرُ امید ہے کہ وہ خود کارروائیاں کر کے سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کو قابو کر سکتا ہے، ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ افغان قیادت پاکستان کے اس لائحہ عمل سے پریشان نظر آئی ہے اور ایک مرتبہ پھر ان کی جانب سے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔

افغانستان کے عوام طالبان کی پالیسیوں کے باعث افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور دوطرفہ تجارت بند ہونے سے بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں، افغانستان پاکستان کے ساتھ ایسا رویہ رکھ کر زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔