لاہور: (محمد حذیفہ) 3 دسمبر کو خصوصی افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اس دن کا بنیادی مقصد معاشرے کے ان افراد کے حقوق، ضروریات، صلاحیتوں اور مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا کی تقریباً 16 فیصد آبادی کسی نہ کسی معذوری کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے، پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں خصوصی افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہے لیکن حکومتی سطح پر ان کی ضروریات کے مطابق سہولتوں کی فراہمی اب بھی ناکافی ہے، پاکستان میں خصوصی افراد کی اصل تعداد پر اختلاف پایا جاتا ہے، 2017 کی مردم شماری میں ان کی شرح صرف 0.48 فیصد بتائی گئی تاہم ماہرینِ سماجیات اسے درست قرار نہیں دیتے۔
عالمی اداروں کے مطابق پاکستان جیسے ممالک میں معذور افراد کی شرح 10 سے 15 فیصد کے درمیان ہوتی ہے، اس حساب سے پاکستان میں تقریباً دو کروڑ سے زائد افراد کسی نہ کسی جسمانی، ذہنی یا سماعت و بصارت کی معذوری کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں میں خصوصی افراد کے حقوق سے متعلق متعدد قوانین منظور کئے ہیں، 2011ء میں پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے کنونشن برائے حقوقِ معذوراں (UNCRPD) کی توثیق کی۔
اس کے بعد مختلف صوبوں نے خصوصی افراد کے حقوق سے متعلق قوانین بھی بنائے جیسے سندھ میں 2018 کا سندھ معذور افراد تحفظ ایکٹ،پنجاب کا سپیشل پرسنز ایکٹ 2020،خیبرپختونخوا کا معذور افراد کا ایکٹ 2022، ان قوانین میں تعلیم، روزگار، رسائی، مالی معاونت، علاج، سماجی تحفظ اور سیاسی شمولیت جیسے نکات شامل ہیں، لیکن مسئلہ ہمیشہ کی طرح نفاذ کا ہے۔ عملاً نہ عمارتیں قابلِ رسائی ہیں نہ دفاتر میں ریمپس ہیں نہ بڑی تعداد میں ملازمتوں کا کوٹہ پورا کیا جاتا ہے نہ ہی خصوصی افراد کیلئے تعلیم اور صحت کے نظام کو مؤثر بنایا گیا ہے۔
قانون موجود ہو تو بھی رویے، نگرانی، بجٹ اور ترجیح نہ ہو تو وہ کاغذی کارروائی بن جاتا ہے، خصوصی افراد کو صحت کے نظام میں بھی رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے، ہسپتالوں میں وہیل چیئر کی رسائی، بریل یا سائن لینگویج کے ذریعے معلومات کی فراہمی اور ذہنی صحت کیلئے معاون سہولتیں بہت کم ہیں، سب سے اہم مسئلہ نفسیاتی دباؤ ہے جو خصوصی افراد مسلسل معاشرتی رویوں کی وجہ سے سہتے ہیں، ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کی معذوری کیلئے پاکستان میں ماہرین اور علاج کے وسائل بہت کم ہیں۔
تعلیم تک رسائی، سب سے بڑا چیلنج
پاکستان میں خصوصی بچوں کی تعلیم سب سے بڑا مسئلہ ہے، اقوامِ متحدہ کے مطابق پاکستان میں 90 فیصد خصوصی بچے سکولوں سے باہر ہیں، عام سکولوں میں ریمپس، سائن لینگویج، بریل سسٹم یا خصوصی اساتذہ نہیں ہیں، خصوصی بچوں کو تعلیمی نظام سے باہر رکھ کر ہم ان کی زندگی، کیریئر اور سماجی کردار کو محدود کر دیتے ہیں، دنیا کے زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں انکلوسیو ایجوکیشن یعنی سب کیلئے مشترکہ نظام تعلیم ترجیح ہے جبکہ ہمارے ہاں ابھی یہ تصور ابتدائی مراحل میں ہے۔
روزگار اور معاشی مشکلات
معذور افراد کے لئے سرکاری ملازمتوں میں دو فیصد کوٹہ مختص ہے لیکن اکثر محکمے یہ کوٹہ پورا نہیں کرتے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان افراد کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہے، یوں مالی انحصار خاندانوں پر بڑھ جاتا ہے،عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے، سماجی سطح پر الگ تھلگ ہونے کا احساس بڑھتا ہے، اصل مسئلہ معذوری نہیں بلکہ معاشرتی نظام کی وہ ناکامی ہے جو اِن کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں ناکام رہتی ہے، دنیا بھر میں ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے خصوصی افراد کیلئے ہزاروں مواقع پیدا کئے ہیں مگر ہمارے ملک میں اس سمت میں ترقی ابھی بہت سست ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا، نصاب، مساجد، تعلیمی ادارے اور حکومتی بیانیہ مل کر آگاہی پیدا کریں کہ معذوری ایک جسمانی یا ذہنی کیفیت ہے کمزوری نہیں۔
آگے بڑھنے کا راستہ
خصوصی افراد کے حوالے سے حقیقی تبدیلی کیلئے کئی اقدامات ناگزیر ہیں، مثال کے طور پر درست اعداد و شمار کی تدوین، خصوصی افراد کے حقوق سے متعلق قوانین کا نفاذ یقینی بنایا جائے، سکولوں کو قابلِ رسائی بنایا جائے اور خصوصی تربیت یافتہ اساتذہ بھرتی کئے جائیں، دو فیصد کوٹہ بھرنے پر سختی کی جائے اور نجی شعبے کو مراعات دی جائیں۔
میڈیا اور نصاب میں خصوصی افراد کی نمائندگی بڑھائی جائے، جدید ایڈاپٹو ٹیکنالوجیز کو سبسڈی دے کر عام کیا جائے، ریاست، معاشرہ اور خاندان خصوصی افراد کو وہ مواقع فراہم کریں جن کے وہ برابر کے حق دار ہیں، پاکستان تبھی مضبوط ہوگا جب اس کے تمام شہری، چاہے وہ جسمانی، ذہنی، بصارت یا سماعت کی کسی بھی معذوری کے حامل ہوں، برابر کے شہری تسلیم کئے جائیں۔
محمد حذیفہ کمپیوٹر سائنس کے طالب علم ہیں، ان کے بلاگ مختلف ویب سائٹس پر شائع ہوتے رہتے ہیں۔



