دمام: (ویب ڈیسک) سعودی عرب میں تجارتی پیمانے پر تیل کی دریافت کا کریڈٹ امریکی پیٹرولیم جیالوجسٹ میکس اسٹینکی کو دیا جاتا ہے تاہم حقیقت میں اس کا اصل کریڈٹ سعودی شہری خمیس بن رمثان کو جاتا ہے، جو ستاروں کی چال کی مدد سے اپنا راستہ ڈھونڈ نکالنے میں ماہر تھے اور انھیں یہ بھی علم تھا کہ تیل کی تلاش کے لیے بہتر جگہ کہاں ہوسکتی ہے۔
صحرا پیمائی کے ماہر اور اپنے ہاتھ پر سعودی عرب کی جغرافیائی حدوں کا تعین کرنے والے خمیس بن رمثان 20ویں صدی کی شروعات میں جبیل میں پیدا ہوئے۔ سعودی عرب کے جغرافیہ کے حوالے سے خمیس بن رمثان کا علم اس وقت کے سرکاری نقشے سے زیادہ مستند تھا۔ خمیس بن رمثان ان مشہور رہبروں میں سے ایک تھے جن کی مہارت اور تجربے کو ماہرین ارضیات نے سعودی عرب میں تیل کی تلاش ، کھدائی اور تیل نکالنے کے وقت بھی سراہا تھا۔ وہ پہلے صحرائی رہبر تھے جنھیں سعودی حکومت نے تیل کی تلاش کی ذمے داری سونپی تھی۔ بعد میں 1934ء میں آرامکو کمپنی کو یہ ذمے داری سونپ دی گئی تھی۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق آج سے ٹھیک 80 سال پہلے مارچ 1938ء میں خمیس بن رمثان نے امریکی پیٹرولیم جیالوجسٹ میکس اسٹینکی کو سعودی عرب میں تیل کے پہلے کنویں کی دریافت میں مدد دی تھی۔ یہ کنواں اب دمام نمبر 7 کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انھوں نے جب تیل کی تلاش میں مدد دی تھی تو تب جی پی ایس اور تیل اور گیس کو نکالنے کے لیے جدید آلات کا وجود تک نہیں تھا۔
سعودی حکومت نے 1933ء میں امریکی کمپنی اسٹینڈرڈ آئل آف کیلی فورنیا کو ملک میں تیل کی تلاش کی اجازت دی تھی۔ اسی کمپنی نے بعد میں سعودی عرب میں کیلی فورنیا عربین اسٹینڈرڈ آئل کمپنی کے نام سے اپنی ذیلی کمپنی قائم کی تھی۔ اس نے سعودی عرب کے مشرقی علاقے کے گورنر عبداللہ بن جلوائی سے یہ درخواست کی تھی کہ اس کے ماہرین ارضیات کی رہنمائی کے لیے ماہر صحرائی رہبرمہیا کیے جائیں۔ سعودی حکومت کی جانب سے خمیس بن رمثان کو امریکی ماہرین کی رہنمائی کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس وقت وہ اپنے قبیلے عجمان کے ساتھ الضحنہ کے صحرا میں مقیم تھے۔ انھوں نے 1934ء میں اس کمپنی کے لیے کام شروع کیا تھا۔4 مارچ 1938ء کو میکس اسٹینکی اور خمیس رمثان تیل کا پہلا کنواں دریافت کرنے میں کامیاب رہے تھے۔اس کنویں کو بعد میں دمام نمبر سات کا نام دیا گیا تھا۔
امریکی ماہرین ابن رمثان کی ذہانت کے متعرف تھے جس کا انہوں نے کئی مرتبہ اظہار کیا۔ امریکی جیالوجسٹ تھامس برگر اپنی کتاب "آؤٹ اِن دا بلیو" میں لکھتے ہیں کہ ہم جب کنویں سے واپس مڑے تو خمیس نے بتایا کہ وہ پہلے کبھی ادھر نہیں آیا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اگر یہ معاملہ تھا تو پھر آپ کو کیسے پتا چلا کہ تیل کا کنواں یہیں ہوسکتا ہے؟ انھوں نے کوئی 12 میل دور ریت کی پہاڑیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے اس پہاڑی کو وہاں دیکھا تھا۔ ایک روز میں ایک ٹیلے پر تھا تو مجھے ایک شخص نے بتایا کہ عین العبد اس طرف ریت کے ایک اور ٹیلے کی جانب ہے۔ یہ بہت آسان ہے کہ آپ کو کسی نے کوئی 15 میل دور ریت کے ٹیلے کی نشان دہی کی پھر آپ چند سال کے بعد دوبارہ اسی جگہ پر آتے ہیں اور مخالف سمت سے آتے ہوئے، اس ٹیلے کو شناخت کر لیتے ہیں اور اس طرح یقینی طور پر کوئی بھی جان سکتا ہے کہ کنواں کہاں واقع تھا؟
آرامکوکمپنی آج تک خمیس بن رمثان کو نہیں بھولی، اس نے گزشتہ سال اپنے ایک آئل ٹینکر کو ان کے نام سے منسوب کیا تھا۔ آرامکو نے ان کی مہارت اور خدمات کے اعتراف میں 1974ء میں اپنے تیل کے سب سے پہلے کنویں کا نام ان سے منسوب کر دیا تھا۔ تیل کا یہ کنواں مشرقی صوبے میں دریافت ہوا تھا اور یہیں سے سب سے پہلے تیل نکالا گیا تھا۔ سعودی عرب کے یہ مشہور رہبر مہلک مرض کینسر سے ایک ناکام جنگ لڑنے کے بعد 1959ء میں آرامکو کے ایک اسپتال میں چل بسے تھے۔اس وقت ان کی عمر صرف 50سال تھی۔ سعودی عرب میں تیل کی دریافت میں ان کے کردار کو آج بھی سراہا جاتا ہے اور ان کی تیل کا سراغ لگانے کے لیے غیرمعمولی صلاحیت اور مہارت کی تعریف کی جاتی ہے۔