سرینگر: (روزنامہ دنیا) ریاض نائیکو ضلع پلوامہ کے علاقے بیگ پورہ، اونتی پورہ کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد اسداللہ نائیکو پیشے کے لحاظ سے درزی ہیں اور ان کی والدہ زیبا گھریلو کام کاج سنبھالتی ہیں۔
اسداللہ نائیکو کے مطابق ریاض نائیکو انجینئر بننا چاہتے تھے لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر انہیں اپنا ارادہ ترک کرنا پڑا۔ پھر گریجویٹ کورس میں داخلہ لیا جہاں سائنس اور ریاضی ان کے مضامین تھے۔ نائیکو نے اپنی گریجویشن مکمل کرنے کے بعد نجی سکولوں میں تین سال تک ریاضی کے استاد کی حیثیت سے بچوں کو پڑھایا، وہ اپنے گاؤں کے بچوں کو گھر پر مفت پڑھاتے تھے۔ 2010 میں ایک فرضی جھڑپ کے خلاف کشمیر میں پر تشدد مظاہرے بھڑک اٹھے۔ سکیورٹی فورسز نے درجنوں مظاہرین کو گرفتار کیا جن میں ریاض نائیکو بھی شامل تھے۔ انہیں جب 2012 میں جیل سے رہا کیا گیا تو اسی برس نائیکو نے حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کر لی۔
ریاض نائیکو نے نومبر 2018 میں قطری نشریاتی ادارہ کو انٹرویو میں بتایا کہ ان کے والدین انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے کشمیر سے باہر بھیجنا چاہتے تھے لیکن وہ مزاحمت کی طرف راغب تھے اور جانتے تھے کہ اگر وہ پڑھائی کے لیے کہیں چلے گئے تو گراؤنڈ پر کام نہیں کر پائیں گے ۔ جب سے مسلح بغاوت کا حصہ بنا ہوں میری فیملی کو بہت تکلیفیں اٹھانی پڑی ہیں اور اسے مسلسل ہراسانی کا سامنا ہے ۔ ہمارے گھر پر کئی بار حملہ ہوا۔ میرے بھائی، چچا اور والد کو کئی بار گرفتار کیا گیا۔بے شک ہم نے مسلح جدوجہد کا راستہ چنا ہے لیکن ہم امن چاہتے ہیں جنگ نہیں۔ بھارت نے ہمیں مزاحمت کا پُرتشدد طریقہ اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے ۔ ہماری غلامی 1947 میں شروع ہوئی لیکن اگلے چالیس برسوں تک لوگوں نے بندوقیں نہیں اٹھائیں ۔ بعد ازاں مسلسل جبر اور مزاحمت کے پُر امن ذرائع کو کچلنے کے بعد ہی لوگ بندوقیں اٹھانے پر مجبور ہوئے۔
نائیکو نے الجزیرہ کو بتایا تھا کہ ‘کشمیری عسکریت پسند حق خود ارادیت کے حصول کے لیے اپنی آخری سانس تک لڑنے کے لیے تیار ہیں، نیز بھارت سے کہا تھا کہ ہم جدوجہد کے دوران مرجائیں گے لیکن سرینڈر نہیں کریں گے۔ ریاض نائیکو اعتدال پسند سوچ رکھتے تھے۔ انہوں نے 2018 میں جاری اپنے ایک آڈیو بیان میں ہندو امرناتھ یاتریوں کو کشمیر کے مہمان قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ حزب المجاہدین یاتریوں پر حملے کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتی۔ انہوں نے اسی آڈیو بیان میں مہاجر کشمیری پنڈتوں کو وطن (کشمیر) واپس لوٹنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک پنڈت خاندان کو اپنی ذاتی اراضی پر بسائیں گے۔