کابل: (ویب ڈیسک) افغانستان کے قومی مصالحتی کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ امریکی افواج کی جنگ زدہ ملک سے واپسی کی صورت میں کابل کو کسی بھی ممکنہ صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرکے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ تمام امریکی افواج کرسمس تک افغانستان سے اپنے گھر واپس لوٹ آئیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹ میں لکھا کہ فغانستان میں خدمت کرنے والے ہمارے بہادر مرد و خواتین کی تعداد کرسمس تک بہت تھوڑی رہ جانی چاہئے۔
یہ بھی پڑھیں: رواں برس کرسمس تک افغانستان سے اپنی افواج کا مکمل انخلاء چاہتے ہیں: امریکی صدر
امریکا کے قومی سلامتی مشیر رابرٹ او برائن نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکا اگلے ماہ کے اوائل میں افغانستان میں اپنی افواج کی تعداد پانچ ہزار سے بھی کم کردے گا۔
خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان کے اعلی قومی مصالحتی کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ نے رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی صورت میں افغانستان کو کسی بھی ممکنہ صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: 20 سال سے لڑی جانیوالی جنگ 20 دن میں ختم نہیں کر سکتے: افغان صدر
ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ وقت اور (افواج کی) تعداد کے بارے میں پوری طرح سمجھنے میں ذرا دقت ہو لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نومبر تک افواج کی ایک بڑی تعداد کا انخلاء مکمل ہوجائے گا۔ ہمیں اس کا اندازہ ہے اور امریکی فوج بھی اس کے لیے تیاریاں کررہی ہیں۔ لیکن افغان کی حیثیت سے بالآخر ہمیں ہی کسی بھی ممکنہ صورت حال کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے بین الاقوامی شرکائے کار نے جو فیصلے کیے ہیں اس کے مضمرات ہوں گے لیکن یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ مل کر کام کریں اور امن کے ساتھ رہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم دوحہ میں امن مذاکرات کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں امن، پاکستان کی سیاسی، عسکری قیادت ایک صفحے پر ہے:عبد اللہ عبد اللہ
ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے نئی دہلی میں منوہر پاریکر انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ انالسیس (آئی ڈی ایس اے) میں سفارت کاروں، اعلی سول حکام اور سفارتی امور کے ماہرین اور صحافیوں سے خطاب کررہے تھے۔ وہ دوحہ میں جاری امن مذاکرات کے سلسلے میں بھارتی رہنماوں اور اعلی سکیورٹی افسران کے ساتھ وسیع تبادلہ خیال کے لیے چھ روزہ دورے پربھارت آئے ہوئے ہیں۔