نیویارک : (ویب ڈیسک ) امریکہ میں خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق ملازم جوشوا شولٹ کو ایجنسی کا ڈیٹا لیک کرنے پر 40 سال کی سزا سنا دی گئی۔
امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق گزشتہ روز نیویارک کے اٹارنی جنرل کے دفتر کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ملازم نے ملکی تاریخ میں سب سے بڑے پیمانے پر ڈیٹا لیک کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق جوشوا شولٹ پر 2016 میں ویکی لیکس کو ڈیٹا دینے کا الزام لگایا گیا تھا، ان پر 2022 میں قومی دفاع سے متعلق معلومات کو غیرقانونی طور پر جمع کرنے، آگے منتقل کرنے اور تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کا جرم ثابت ہوا تھا۔
2023 میں اٹارنی جنرل آفس سے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ شولٹ چائلڈ پورنوگرافی کا مواد حاصل کرنے، پاس رکھنے اور آگے منتقل کرنے کا مجرم بھی قرار دیا گیا تھا۔
جوشوا شولٹ نے سی آئی اے سینٹر کے شعبہ برائے سائبر انٹیلی جنس میں کام کیا، اور ایسے ٹولز بنائے جن کی مدد سے خفیہ ڈیٹا اس طرح سے لیا گیا جس کی نشاندہی نہیں ہو سکتی تھی۔
امریکی میڈیا کے مطابق شولٹ کی جانب سے مقدمے کے دوران اپنے دفاع کے لیے کوششیں کی گئیں، ان کے خلاف پہلا ٹرائل 2020 میں مکمل ہوا تھا۔
امریکی میڈیا رپورٹ کے مطابق اٹارنی جنرل ڈیمین ولیمز کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جوشوا شولٹ نے امریکی تاریخ میں جاسوسی کے انتہائی گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کر کے اپنے ملک کو دھوکا دیا، انہوں نے مقدمے پر خفیہ ادارے سے بدلہ لینے کے لیے قومی سلامتی کو ناقابل بیان نقصان پہنچایا، جس نے دوران ملازمت ان کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات پر کیا۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب ایف بی آئی نے شولٹ کو پکڑا تو وہ ملکی سلامتی کے لیے مزید خطرناک ہو کر سامنے آیا اور جنگ کے حوالے سے معلومات کی اشاعت کا باعث بنا۔
جوشوا شولٹ پر جاسوسی اور دیگر الزامات 2022 میں ثابت ہوئے تھے، شولٹ نے 2012 سے 2016 تک سی آئی اے کے ایلیٹ ہیکنگ یونٹ میں کام کیا تھا، شولٹ 2018 سے جیل میں تھا ۔