سری نگر: (ویب ڈیسک) جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے سربراہ اور دیگر تمام حریت رہنماؤں کو بھارت نے کئی سالوں سے نئی دہلی کی جیل میں غیر قانونی طور پر قید کر رکھا ہے۔
19 مئی 2022 کو بھارتی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی عدالت نے یاسین ملک کو بھارتی ریاست کے خلاف سازش اور جنگ چھیڑنے کے الزامات میں مجرم قرار دیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی/ آر ایس ایس حکومت کے پہلے پانچ سالوں کے دوران ان پر یا ان کی جماعت پر کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔
بھارتی عدالت نے یاسین ملک کو 30 سال پرانے جھوٹے مقدمے میں سزا سنائی جس پر بین الاقوامی میڈیا نے بھارتی غیر قانونی کارروائی کو سیاسی انتقام قرار دیا۔
بین الاقوامی خبر ایجنسی الجزیرہ کا کہنا ہے کہ ’’یہ سیاسی انتقام لگتا ہے، ان مقدمات نے اقوام متحدہ کی جانب سے متنازعہ قرار دیے گئے علاقے میں یہ خوف پیدا کیا کہ بھارتی ریاست نے پہلے ہی ان کی سزائے موت کا فیصلہ کر لیا ہے‘‘۔
مارچ 2020 میں جیل سے خاندان کے ذریعے جاری کردہ کھلے خط کے مطابق جے کے ایل ایف نے 1994 میں بھارتی ریاست کی طرف سے اس کے اور اس کے ساتھیوں کے خلاف سیاسی تصفیہ اور "عسکریت پسندی سے متعلق مقدمات" کو معطل کرنے کی یقین دہانی کے بعد یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس پیش رفت کو ’’انتہائی قابل مذمت‘‘ قرار دیا ہے، پاکستان کے دفتر خارجہ نےکہا کہ یاسین ملک پر ’’من گھڑت الزامات‘‘انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے (UDHR) اور شہری و سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے (ICCPR) کی خلاف ورزی ہیں۔
بھارت نے جنگ بندی کے اس وعدے کی خلاف ورزی کی جو 1994 میں کیا گیا تھا، جب جموں کی ٹی اے ڈی اے عدالت نے 30 سال پرانے مقدمات کی سماعت شروع کی جو اس معاہدے کی روح کے خلاف ہے۔
یاسین ملک نے جج پر ’’استغاثہ یا پولیس افسر‘‘ کے طور پر کام کرنے کا الزام لگایا اور منصفانہ مقدمے سے انکار کیا انہوں نے کہا: ’’میرے پاس قانونی حق ہے کہ میں عدالت میں جسمانی طور پر پیش ہوں، لیکن جج اور سی بی آئی حکومت کے کہنے پر مجھے پیش ہونے کی اجازت نہیں دے رہے۔‘‘
یاسین ملک کے وکیل طفیل راجہ نے ان کے خلاف مقدمات کو ’’من گھڑت‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت انہیں منصفانہ ٹرائل کی پیشکش نہیں کرتی تو وہ بائیکاٹ کریں گے۔
انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز نے کہا کہ منصفانہ سماعت ہر ایک کا عالمی سطح پر تسلیم شدہ حق ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے گروپوں نے بھی بھارتی حکومت پر یاسین ملک کے ساتھ غیر منصفانہ رویے کا الزام عائد کیا۔
بھارت کو یاسین ملک کے ان سوالوں کا جواب دینا چاہیے جو بی جے پی کے چھپے ہوئے ایجنڈے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
’’اگر میں دہشت گرد تھا تو بھارت کے سات وزرائے اعظم نے مجھ سے کیوں ملاقات کی؟
اگر میں دہشت گرد تھا تو اس پورے مقدمے کے دوران میرے خلاف چارج شیٹ کیوں نہیں داخل کی گئی؟
اگر میں دہشت گرد تھا تو وزیر اعظم واجپائی نے مجھے پاسپورٹ کیوں جاری کیا؟
اگر میں دہشت گرد تھا تو مجھے دنیا بھر کے مختلف اداروں میں لیکچر دینے کا موقع کیوں دیا گیا؟‘‘
عدالتی قتل کی ایک اور سازش
یہ عام علم ہے کہ بھارتی حکومت نے 1984 میں جے کے ایل ایف کے بانی مقبول بٹ کو عدالتی طور پر قتل کر کے پھانسی دی، مقبوضہ کشمیر کے عوام کو خدشہ ہے کہ یاسین ملک بھی اسی طرح کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
سابق بھارتی سفارت کار وجاہت حبیب اللہ نے بھی اس بارے میں قیاس آرائیوں کو تسلیم کیا ہے کہ انہیں پھانسی دی جا سکتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے آزاد محقق فیضان بھٹ نے بین الاقوامی خبر ایجنسی (الجزیرہ) سے گفتگو میں کہا کہ ’’جب کشمیری سیاسی قیدیوں کی بات آتی ہے، تو بھارتی ریاست کے علاوہ ان کی عدلیہ بھی تمام قوانین اور ہدایات کو نظرانداز کر دیتی ہے‘‘ ۔
وزیر اعظم آزاد کشمیر نے بھارت کی جانب سے یاسین ملک کے یکطرفہ ٹرائل کو ’’کینگرو کورٹ‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔
یو کے کے وزیر خارجہ طارق احمد نے 17 مئی 2022 کو ہاؤس آف لارڈز میں کشمیری علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک کے مقدمے کی قریب سے نگرانی کی تصدیق کی۔
برطانوی پارلیمنٹیرین لارڈ قربان حسین نے کہا کہ یاسین ملک ایک ’’نمایاں کشمیری رہنما‘‘ ہیں جن کے برطانیہ میں بھی بڑے پیمانے پر حامی ہیں۔
لارڈ قربان حسین نے دعویٰ کیا کہ کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ بھارتی حکومت یاسین ملک کو راستے سے ہٹانا چاہتی ہے، ’’ان کی زندگی کو حقیقی خطرہ ہے۔‘‘