آئی ایم ایف تین سال تک کہتا رہا کہ معیشت مستحکم ہو گئی ہے ، حالانکہ ایسا کچھ نہیں تھا۔ 15مارچ کو آئی ایم ایف کی جو رپورٹ آئی ہے ، اس میں مستقبل کی انتہائی بھیانک تصویر کھینچی گئی ہے ، ساتھ تجویز کیا گیا ہے کہ سی پیک پر کام سست کر دیا جائے۔ اس سے لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں امریکہ کا ایجنڈا بھی شامل تھا۔ امریکہ اب بھی چاہتا ہے کہ پاکستان جلد از جلد آئی ایم ایف سے رجوع کرے ، پاکستانی معیشت بحران کا شکار ہو تاکہ وہ "ڈو مور" جیسی سیاسی شرائط پوری کرا سکے۔ 19 اگست 2013 کو آئی ایم ایف کو خط لکھا گیا تھا جس پر وزیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک کے دستخط ہیں، خط میں آئی ایم ایف کو یقین دلایا گیا تھا کہ تین سال کے دوران بجلی اور گیس کے نرخ بڑھائے جائینگے ، نوازشریف نے کابینہ میں جبکہ چاروں صوبائی حکومتوں نے مشترکہ مفادات کونسل میں اس کی منظوری دیدی ہے۔ حالانکہ ایسی کوئی منظوری نہیں دی گئی تھی۔ آئی ایم ایف کو معلوم تھا کہ خط جھوٹا ہے ، مگر انہوں نے خاموشی اختیار کی۔
2014 میں ہمیں آئی ایم ایف سے قسطیں ملنا شروع ہوئیں، مگر پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ 2015، 2016 اور 2017 کے دوران پاکستانی برآمدات مسلسل گرتی رہیں، جس کے نتیجے میں معیشت کا مشکلات کا شکار ہونا فطری امر تھا۔ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تیزی سے بڑھ رہا تھا، اندازہ یہ تھا کہ 2017 میں یہ خسارہ دس سے بارہ ارب ڈالر تک رہے گا۔ سٹیٹ بینک اور آئی ایم ایف کی رپورٹ میں چار سے پانچ ارب ڈالر تک خسارے کا اندازہ لگایا گیا تھا، حالانکہ چھ ماہ کے اعدادوشمار کچھ اور منظر کشی کر رہے تھے ۔ سٹیٹ بینک، آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ نے دانستہ حقائق چھپائے رکھے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے دوران ترسیلات زر میں 5.4 ارب ڈالر جبکہ برآمدات میں 2.9 ارب ڈالر کمی ہوئی۔ برآمدات اس وقت بڑھتی ہیں جب صنعتی ترقی ہو رہی ہو۔ برآمدات کے گرنے کی وجہ آئی ایم ایف کی ایک شرط بھی تھی۔
این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو جو رقوم ملنی تھی، ان کے بارے میں صوبے بار بار یہ دعویٰ کر تے رہے کہ وفاق ان کا استحصال کر رہا ہے ، اعدادوشمار کے مطابق چاروں صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت جو پیسہ ملا تھا، آئی ایم ایف کے مشورے پر انہوں نے خرچ نہ کیا تاکہ بجٹ خسارہ کنٹرول کیا جا سکے ، انہیں زرعی اور مزید پراپرٹی ٹیکس نہ لگانے پڑیں، نہ ڈی سی ریٹ بڑھانا پڑے ۔ حکومت کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق صوبوں نے 476 ارب روپے خرچ نہیں کئے تاکہ بجٹ خسارہ مصنوعی طور پر کنٹرول کیا جا سکے ۔ مگر جب تک پیسہ خرچ نہ ہو، معیشت ترقی نہیں کرتی۔ تشویش کی بات سی پیک پر کام سست کرنے کی تجویز ہے۔ معیشت کا بنیادی اصول ہے کہ بیرونی اور ملکی سرمایہ کاری میں توازن رکھا جائے ، اگر 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آ رہی ہے ، تب ملکی سطح پر بھی سرمایہ کاری بڑھانے کی ضرورت تھی، مگر توجہ نہ دی گئی اور ہم اداروں کے ٹکراؤ میں لگے رہے۔
امریکہ جو یہ چاہتا ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے رجوع کریں اور وہ کڑی شرائط لگائے۔ جبکہ ہم اصلاحات کے لئے تیار نہیں، اس صورت میں معیشت کیلئے خطرات مزید بڑھ جائینگے۔ روپے کی قدر گرنا ایک علامت ہے، جس میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، تجارتی خسارہ، بجٹ خسارہ، برآمدات میں کمی، درآمدات میں اضافے، ٹیکسوں کی وصولی میں کمی وغیرہ شامل ہیں۔ ہمیں معاشی ڈھانچے میں اصلاحات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس کے بغیر معیشت میں بہتری نہیں آ سکتی ، مگر ہماری طاقت ور اشرافیہ ان اصلاحات کیلئے تیار نہیں۔