مفتاح نے وزیراعظم کا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ صحیح قراردیدیا

Published On 16 August,2022 10:51 pm

لاہور: (دنیا نیوز) وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کے لیے مجھے اوگرا نے جوسمری بھیجی وہ میں نے وزیراعظم کوبھیج دی، میں یہ سمجھتا ہوں شہباز شریف کا فیصلہ صحیح تھا۔

دنیا نیوز کے پروگرام دنیا کامران خان میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ پٹرول کی قیمتیں مئی سے بڑھنا شروع ہوگئی تھی، گزشتہ رات قیمتوں میں ایک روپیہ اضافی ٹیکس اور لیوی نہیں لگایا، یکم اگست کوپٹرول پرلیوی لگائی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ٹویٹرپرہمارے اپنے لوگوں نے بھی میرے خلاف باتیں کی ہیں، پٹرولیم مصنوعات پرایک روپیہ ٹیکس نہیں بڑھایا، اوگرا کا فیصلہ تھا ہم اس پر کیا کر سکتے تھے، وزیرخزانہ جومرضی کہے میرے دستخط سے تو پٹرول کی قیمت نہیں بڑھتی، وزیراعظم کے دستخط سے پٹرول کی قیمت بڑھتی ہے، مجھے اوگرا نے جوسمری بھیجی وہ میں نے وزیراعظم کوبھیج دی۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ میں یہ سمجھتا ہوں وزیراعظم کا فیصلہ صحیح تھا، پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ پاکستان کے حق میں تھا اورمیں ساتھ کھڑا ہوں، ان دوستوں کا شکرگزارہوں جنہوں نے کہا مفتاح اسماعیل صیح محںت کررہے ہیں، اللہ کا بڑا کرم ہے آج چیزیں ہمارے کنٹرول میں آئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایل این جی کے 5 معاہدے نواز شریف، شاہد خاقان عباسی نے کیے تھے، 3 معاہدے جنرل باجوہ صاحب نے کرا کر دیئے تھے، اس وقت پوری دنیا میں کوئی مالیکول نہیں ہے، اس وقت ایل این جی کی پاکستان میں زبردست قلت ہے۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ دکانداروں پر 42 ارب کا فکس ٹیکس لگایا تھا، غلطی یہ ہو گئی چھوٹے دکانداروں کا اندازہ صیح نہیں لگا سکے، چھوٹے دکانداروں پر فکس ٹیکس زیادتی تھی، پاور سیکٹر کا 15 فیصد کولیکشن کم ہوگیا تھا، 27ارب دکانداروں سے اکٹھا کر لیں گے، گزشتہ حکومت نے تمباکو پر ٹیکس لگایا پھرکم کردیا تھا، چار کمپنیوں کوٹریک اینڈ ٹریس سسٹم پرراضی کرلیا ہے، ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کوبڑھائیں گے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے بہت ساری چیزیں کروائی جو واجب بھی نہیں تھیں، پاکستان چارڈیفالٹ کرنے والے ممالک میں شامل ہورہا تھا، اب پاکستان کے ڈیفالٹ والا کوئی خطرہ نہیں ہے۔

حکومت مزید مشکل فیصلہ کرے گی، وزیر خزانہ نے خبردار کر دیا

اس سے قبل اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ریونیو اور فنانس ڈویژن کی ملاقاتیں ہوچکی ہیں اور اس کی اسٹیٹ بینک سے بھی ایک ملاقات ہو چکی ہے جس کے بعد قرض دہندہ ادارے کا ایک مرحلہ مکمل ہوچکا ہے اور امید ہے کہ اگست میں ہی بورڈ اجلاس ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ جو ڈالر 17 جولائی سے ہمارے کنٹرول سے نکل گیا تھا اور انٹربینک میں 239 روپے تک پہنچ گیا تھا اب اس پر ہم نے قابو پالیا ہے اور یکم اگست سے 15 اگست تک دنیا کی بہترین کرنسی پاکستانی روپیہ تھا اور دنیا کی تیز چلنے والی اسٹاک مارکیٹ بھی پاکستان اسٹاک ایکسچینج تھی۔ جولائی میں جب کرنسی گر رہی تھی میں اس وقت بھی گزارش کرتا تھا کہ درآمداد روکنے دیں اور اگر میں درآمدات کو برآمدات اور ترسیلات کے برابر لے آؤں گا تو خود ہی روپیہ مظبوط ہونا شروع ہوگا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اگر آپ 80 ارب ڈالر کی درآمدات اور 31 اعشاریہ 7 ارب ڈالر کی برآمدات کرتے ہیں جس کے تحت آپ 48 اعشاریہ 3 ارب ڈالر کا خسارہ کرتے ہیں یعنی دنیا کی چیزیں 80 ارب ڈالر کی خریدنی ہیں لیکن آپ کے پاس دنیا کو بیچنے کے لیے 31 اعشاریہ 7 ارب ڈالر کی چیزیں ہیں تو 48 ارب ڈالرز کہیں سے بھی چاہئیں، جس میں سے بیرون ممالک میں کام کرنے والے ہماری پاکستانی 30 ارب ڈالرز اپنے اہل خانہ کو بھیجتے ہیں جس کے بدلے میں ہم انہیں مقامی کرنسی دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پھر بھی 20 ارب ڈالرز کی ضرورت ہے تو ساڑے 17 ارب ڈالرز کا گزشتہ سال کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا اور تحریک انصاف جب حکومت میں تھی تو وہ لوگ صرف ایک ہی بات کرتے تھے کہ معیشت کی گردش صرف کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے جبکہ وہ ترقی کو نہیں دیکھتے تھے، ہم نے جو انفرااسٹرکچر میں بہتری لائی، 12 ہزار میگاواٹ بجلی لگائی، 17 سو کلومیٹر موٹروے بنائے ان میں سے کچھ بھی ان کو نظر نہیں آتا تھا اور صرف کہتے تھے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ زیادہ ہے اس لیے معیشت کی رفتار ٹھیک نہیں۔

مفتاح اسمٰعیل نے تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے چار برس میں آپ نے 19 ہزار 3 ارب روپے کا قرض بھی لے لیا جو کہ گزشتہ 71 برس کے 79 فیصد برابر ہے جبکہ آپ نے حکومت چھوڑتے وقت کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی ساڑھے 17 ارب ڈالرز تک چھوڑا، اسی طرح بجلی کے بقایا ادائیگی کے لیے بھی 15 سو ارب چھوڑے، ور اسی طرح گیس کا گردشی قرضہ بھی 14 سو ارب تک چھوڑ کر گئے جس کا نام ہم نے پہلی بار سنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے دو ماہ میں 2 سو ارب کا سوئی سدرن گیس میں نقصان کیا جہاں پر ایل این جی مقامی گیس کی قیمت کے برابر 2 ڈالرز تک فروخت کردی جو کہ 20 ڈالرز کی خریدی گئی تھی، جو ایل این جی 4 ڈالر تک مل رہی تھی وہ بھی آپ (عمران خان) نے نہیں خریدی کہ ہم طویل مدتی معاہدے نہیں کریں گے، یہاں تک کہ مجھے اور شاہد خاقان عباسی کو کچھ وقت کے لیے جیل میں بھی بند کیا، ہم نے دنیا کا سستا ترین ایل این جی ٹرمینل لگایا مگر تحریک انصاف کا ہر وزیر آکر کہتا تھا کہ پندرہ دن میں ٹرمینل شروع ہوجائے گا مگر وہ پونے چار برس میں کبھی شروع نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ جب آپ نے حکومت چھوڑی تو ایندھن، ڈیزل وغیرہ میں کوئی بھی طویل مدتی معاہدہ نہیں کیا اور قطر، کویت سے جو کیے گئے معاہدے تھے وہی چل رہے تھے، جبکہ آپ ہمیں زرمبادلہ کے ذخائر بھی 10 اعشاریہ 3 ارب ڈالرز تک دے گئے اور رواں برس 21 ارب ڈالر کا قرض واپس کرنا ہے اور جون جولائی میں بھی 3 ارب ڈالر کا قرض واپس کرنا تھا۔ عمران خان بات کرتا ہے حقیقی آزادی کی تو جب آپ کے پاس 48 ارب ڈالرز نہیں ہوں گے اور وہ قرض دیگر ممالک سے مانگنے ہوں گے تو یہ کونسی حقیقی آزادی ہوئی، جب تم 17 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کرو گے اور دنیا میں کوئی بھی آپ کو پیسے دینے کے لیے تیار نہ ہو تو وہ کونسی حقیقی آزادی ہوئی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ قرض پر قرض لینا صرف تحریک انصاف کا کام نہیں بلکہ پچھلی حکومتوں نے بھی ایسا کیا ہے کیونکہ مشرف 2007 میں سب سے زیادہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ چھوڑ کر گئے تھے مگر جب شہباز شریف آئے تو ہم نے کہا کہ ہم روپے کو مضبوط کریں گے مگر سب سے پہلے ہمیں درآمدات کو کم کرنا ہے، اسی طرح ہم نے پہلے چھوٹی اور غیر ضروری اشیا پر پابندی عائد کی جن میں اسمگلنگ بھی ہوتی ہے جن پر چیخیں بھی اٹھیں کہ ہمارے چاکلیٹ اور جوتے روک دیے، مگر پھر بھی ہم نے پابندی عائد کی اس کے بعد ہم نے گاڑیوں، ایئرکنڈیشنز اور فرجز پر بھی پابندی لگائی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کچھ اچھے لوگ ہیں جو ٹیکس ادا کرتے ہیں مگر ان کے علاوہ کوئی بھی پاکستانی ٹیکس ادا نہیں کرتا، مگر جب کوئی فیکٹری درآمدات کرتی ہے تو ہم اس سے پورا ٹیکس لیتے ہیں جس کی وجہ سے معیشت میں کچھ نقصان ہوا کیونکہ وہ لوگ پھر اپنی اشیا و خام مال مقامی سطح پر فروخت کرتے ہیں، کوئی بھی برآمدات نہیں کرتا۔ ہم ایسا بھی ٹیکس لائیں گے کہ جس میں آپ 10 فیصد بھی برآمدات نہیں کریں گے تو ہم اس میں سے تھوڑا زیادہ ٹیکس لیں گے، ہم نے جو کرنا تھا ہم نے کر لیا اور کل تک ملک میں بینکنگ سسٹم سے 3 اعشاریہ 4 ارب ڈالرز گئے تھے اور 4.1 ارب ڈالر آئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت نے سبسڈی پر پٹرول اور ڈیزل دیا مگر یہ وزارت پٹرولیم کی بڑی بات ہے کہ اس نے سپلائی چین میں رکاوٹ پیدا ہونے نہیں دی اور اوگرا ایک فارمولے کے تحت قیمتیں بڑھاتا ہے۔ میں نے نجی چینل  جیو نیوز  کے ایک پروگرام میں بھی کہا تھا کہ میں پٹرولیم مصنوعات پر مزید ٹیکس اور لیوی عائد نہیں کروں گا اس لیے گزشتہ رات جو پٹرول کی قیمت میں 6 روپے 72 پیسے اضافہ ہوا ہے تو اس کے ساتھ ہی دیگر پٹرول مصنوعات میں ایک دو چیزوں کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، کیونکہ میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ قیمتیں نہیں بڑھیں گی بلکہ میں نے کہا تھا مزید ٹیکس نہیں لگے گا۔ میں پاکستانی عوام کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ اوگرا ہر پندرہ دن بعد ایک قیمت کا تعین کرتی ہے اور یہ سسٹم چلتا آرہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب سے ہم آئے ہیں ہم نے ملک کے تمام پرانے مسائل بھی حل کیے ہیں اور درآمدات پر قابو پایا ہے جس سے روپے کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت میں آج پٹرول کی قیمت 300 روپے فی لیٹر تک ہے جبکہ ان کے پاس 600 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں اور ہمارے پاس 10 ارب ڈالر کے ذخائر پڑے ہیں، اسی طرح بنگلہ دیش کے پاس 35 ارب ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر ہیں جبکہ وہاں 308 روپے فی لیٹر پٹرول فروخت ہو رہا ہے کیونکہ دنیا بھر میں مہنگائی آئی ہے، مگر ہماری عمران خان پر سب سے زیادہ تنقید یہ تھی کہ وہ ہمیں اس طرف لے گئے تھے جہاں ملک دیوالیہ ہوجاتا جس پر ہمیں فخر ہے کہ ہم نے سیاسی قربانیاں دے کر پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ حکومت مزید مشکل فیصلے کرے گی اور میں حکومت کے تمام مشکل فیصلوں کے پیچھے کھڑا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈالر نیچے آرہا ہے اور اب پاکستان میں بہتری آرہی ہے جبکہ ہمارا اگلا ہدف مہنگائی پر کنٹرول کرنا ہے جس میں پٹرول اور ڈیزل کا بڑا ہاتھ ہے۔ کچھ دوست پوچھتے ہیں کہ جب ڈالر نیچے جارہا ہے تو پٹرول کی قیمت میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے، مگر میں کہتا ہوں کہ جب دو ہفتے قبل ڈالر 236 پر پہنچ گیا تھا تو ہم نے پٹرول کی قیمت میں 3 روپے کمی کی تھی جس پر ہم سے کسی نے نہیں پوچھا، جبکہ ہم پٹرول کو زیادہ سے زیادہ 248 روپے فی لٹر تک لے گئے جس کے بعد قیمت میں کمی کرتے گئے۔
 

Advertisement