تبصرہ: شعیب منصور کی فلم 'ورنہ' موضوع سے انصاف نہ کر سکی

Published On 18 Nov 2017 09:35 PM 

شعیب منصور کی فلم "ورنہ" بہت سے تنازعات اور مشکلات سے گزرنے کے بعد بالاخر باکس آفس کی زینت بن ہی گئی۔

تحریر: تحریم عظیم

ورنہ کی کہانی ایک ایسی عورت کی ہے جسے گورنر کا بیٹا اپنی درندگی کا شکار بناتا ہے اور پھر وہ ایک طاقتور گروہ کے سامنے کھڑی ہوتی ہے اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا بدلہ لیتی ہے۔

سب کی طرح ورنہ کی ریلیز کا مجھے بھی بہت شدت سے انتظار تھا۔ سنسر بورڈ کی طرف سے ورنہ کو نمائش کی اجازت نہ ملنے کے سبب یہ اشتیاق اور بڑھ گیا تھا۔ امید تھی کہ فلم بروز جمعہ ریلیز ہوگی۔ ٹکٹ بھی خرید لی، سنیما انتظامیہ سے یقین دہانی بھی لے لی۔ جمعے کو دوپر سوا تین بجے پہلا شو تھا۔ ڈھائی بجے خبر ملی کہ ورنہ کو پنجاب میں نمائش کی اجازت نہیں ملی۔ سنیما رابطہ کیا تو پتا چلا شو کینسل ہو گیا ہے۔ خیر شام تک فلم کو پنجاب میں بھی نمائش کی اجازت مل گئی اور آج دوپہر کا شو دیکھنے میں اور میری ایک ساتھی پہنچ گئے۔

جنسی زیادتی ہمارے معاشرے کا ایک بہت تاریک پہلو ہے۔ اس پر متعدد ڈرامے بھی بن چکے ہیں لیکن کوئی بھی ڈرامہ اس موضوع پر کھل کر بات نہ کر سکا۔ جب شعیب منصور نے بھی اسی موضوع پر فلم بنانے کا فیصلہ کیا تو ان سے بہت سی توقعات کا وابستہ ہو جانا کسی اچھنبے کی بات نہیں تھا لیکن وہ ان توقعات پر پورا نہیں اتر سکے۔

شعیب منصور نے ورنہ کی ریلیز سے قبل متعدد بار کہا کہ اس فلم میں وہ جنسی زیادتی کی شکار خاتون کو ایک الگ روپ میں دکھائیں گے۔ فلم کے ٹریلر میں ماہرہ خان کہتی ہیں کہ خوف میرے ڈی این اے میں نہیں ہے۔ ان کا یہ جملہ ان تمام خواتین کے لیے ایک امید تھا جو کہ جنسی زیادتی کا شکار رہی ہیں اور خاندان کی بدنامی کے ڈر سے انہیں چپ رہنا پڑا لیکن مجھے افسوس ہے کہ فلم دیکھنے کے بعد ان تمام خواتین کی امید کی یہ کرن بجھ گئی ہوگی۔

ورنہ کی کہانی ایک نئے شادی شدہ جوڑے کے تعارف سے شروع ہوتی ہے۔ ماہرہ خان نے اس فلم میں سارہ کا کردار نبھایا ہے جبکہ ہارون شاہد ان کے شوہر ایمی کے کردار میں ہیں۔ ایمی کو ان کے والدین نے بچپن میں پولیو کے قطرے نہیں پلوائے جس کی وجہ سے ایمی عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے۔ سارہ ایک مضبوط عورت ہے جو کہ معاشرے کے پرواہ نہیں کرتی اور وہی کرتی ہے جو اس کا دل چاہتا ہے۔ سارہ نے اپنے والدین کی مخالفت کے باوجود ایمی سے شادی کی اور دونوں بہت خوش و خرم زندگی جی رہے ہوتے ہیں۔

کہانی میں موڑ تب آتا ہے جب ایمی، سارہ اور ایمی کی بہن، ماہ گل، ہنزہ کی سیر کے لیے گھر سے نکلتے ہیں۔ گھر سے نکلتے ہی ارادہ تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ قریبی پارک میں چلے جاتے ہیں۔ پارک میں وہ ایک اچھا دن گزار رہے ہوتے ہیں کہ اچانک ان کے قریب ایک گاڑی آ کر رکتی ہے۔ اس میں سے دو آدمی اترتے ہیں، ان کی گاڑی کا ٹائر پنکچر کرتے ہیں اور ان کے موبائل چھیننے کے بعد ایمی سے کہتے ہیں کہ وہ بہن اور بیوی میں سے ایک کو ان کے حوالے کردے۔ وہ لوگ ماہ گل کو لے جانے کی کوشش کرتے ہیں تو سارہ ان کے راستے میں آجاتی ہے اور ماہ گل کی بجائے خود ان کے ساتھ چلی جاتی ہے۔ یہاں مجھے کئی سال پہلے ایک نجی چینل پر دیکھا ایک ڈرامہ یاد آگیا جس میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ شعیب منصور صاحب ایک نیا آئیڈیا لا سکتے تھے نجانے کیوں انہوں نے ایک ڈرامے کے آئیڈیے کو کاپی کیا۔

جب سارہ تین دن بعد گھر واپس آتی ہے اور پولیس میں رپورٹ کرنا چاہتی ہے تو اس کے گھر والے اسے روک دیتے ہیں۔ بدنامی کا خوف ان کے پیروں کی زنجیر بن جاتی ہے۔ ایمی کا رویہ بھی سارہ کے ساتھ تبدیل ہو جاتا ہے۔ وہ چاہ کر بھی سارہ کا خود ان لوگوں کے ساتھ جانا نہیں بھول سکتا اوراسے الزام دیتا ہے۔ سارہ بھی اسے وہی جملے کہتی ہے جو اس ڈرامے میں اغوا ہونے والی عورت کہتی ہے کہ تماری بہن کی آگے شادی ہونے ہے، اگر وہ لوگ اسے لے جاتے تو اس سے شادی کون کرتا۔

کہانی کے درمیان میں پتہ لگتا ہے کہ جس دن سارہ، ایمی اور ماہ گل پارک جا رہے تھے تو راستے میں انہیں وی آئی پی کلچر کی وجہ سے سڑک پر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سب لوگ وہاں کھڑے پریشانی اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں سارہ، ماہ گل کے ساتھ جاتی ہیں اور گورنر کی گاڑی رکوا کر اسے وی آئی پی کلچر کے خلاف لیکچر دیتی ہیں۔ اس کے بعد یہ تینوں پارک میں چلے جاتے ہیں۔ جیسے ہی گورنر کے گاڑی زبردستی رکوانے اور ایک لیکچر دینے کی خبر اس کے بیٹے تک پہنچتی ہے وہ ان لوگوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ لیتا ہے۔ اس کے ملازم فوراً پارک میں پہنچتے ہیں اور سارہ کو اپنے ساتھ لے آتے ہیں۔

ریپ کی اس وجہ کو فلم کے درمیان میں بیان کرنا بھی اس فلم کی ایک بڑی کمزوری ہے۔ سارہ کے ساتھ ہی ریپ کیوں ہوا؟ فلم کے شروع میں ہی یہ سوال ناظرین کے ذہنوں میں پنپنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس سوال کا جواب فلم کے درمیان میں ملنا کافی منفی تاثر دیتا ہے۔

اپنے شوہر کا بدلتا ہوا رویہ دیکھ کر سارہ کا دل بھی کھٹا ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے لیے خود انصاف حاصل کرنے اور شوہر کو چھوڑنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ بقیہ کہانی سارہ کی انصاف کے حصول کے لیے لڑی جانے والی جنگ سے متعلقہ ہے۔ اس جنگ میں اس کے مقابل طاقت کے نشے سے چور گورنر کا بیٹے اور اس کا ساتھ دینے والے کرپٹ سیاستدان ہیں۔

بلاشبہ کہانی کا موضوع بہت زبردست ہے لیکن شعیب منصور اس موضوع سے انصاف نہ کر سکے۔ بہت سے سماجی مسائل کو اجاگر کرنے کے چکر میں وہ کسی ایک کو بھی مکمل طور پر بیان نہ کر سکے۔ پولیو ویکسینیشن کے خلاف لوگوں کا رویہ، وی آئی پی کلچر، ریپ کیسز، جنسی زیادتی کے شکار کو موردِ الزام ٹھہرانا اور بدنامی کے خوف سے چپ رہنے پر مجبور کرنا، خاندان کی عزت کو عورت کے جسم سے منسوب سمجھنا، عورتوں کے لباس کو جنسی زیادتی کی وجہ ٹھہرانا، تھانے اور کچہری کے برے حالات اور عدالتوں میں عورتوں کے ساتھ استعمال ہونے والی نازیبا زبان، غرض مسائل کا ایک انبار تھا جسے شعیب منصور ورنہ کے ذریعے اجاگر کرنا چاہتے تھے مگر وہ اپنی اس کوشش میں ناکام رہے۔

ماہرہ خان بھی جنسی زیادتی کی شکار خاتون کا کردار نبھانے میں ناکام رہیں۔ ان کا کردار بیک وقت ایک بے چاری اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی خاتون کے درمیان اٹکا ہوا لگتا ہے۔ جنسی زیادتی کے بعد ایک عورت کی جو کیفیت ہوتی ہے ان کی اداکاری میں اس کی واضح کمی نظر آئی۔ اپنے شوہر کا بدلتا رویہ اور طعنے اسے طلاق لینے کا فیصلہ لینے پر مجبور کرتے ہیں مگر اگلے ہی لمحے وہ اس فیصلے سے ہٹ بھی جاتی ہے۔ البتہ ایمی کا کردار مجھے سارہ کے کردار سے بہتر لگا۔ فلم میں وہ ایک کمزور اور روائیتی مرد کے طور پر دکھائے گئے ہیں جس کا کردار ہارون نے بخوبی نبھایا۔ کئی مقامات پر وہ اس کردار سے باہر بھی دکھے مگر مجموعی طور پر ایمی کا کردار ایک بہترین کردار تھا۔

مرکزی کرداروں کے علاوہ دیگر کردار بھی کافی کمزور تھے۔ یہ سب کردار حقیقت سے تھوڑے دور دور محسوس ہوئے۔ اگر فلم کی کہانی کے ساتھ ساتھ کرداروں پر بھی محنت کی جاتی تو یہ فلم ایک جاندار فلم بن سکتی تھی۔

فلم کے مکالمے کافی جاندار ہیں لیکن ان میں مزید جان ڈالی جا سکتی تھی۔ ایک محتاط انداز میں فلم بناتے بناتے یہاں بھی بہت سی غلطیاں ہوئیں ہیں۔ جنسی زیادتی کرنے والے کے لیے کتے اور گندے آدمی کے الفاظ کا استعمال سمجھ میں نہیں آتا۔ اردو لغت میں ایسے بہت سے الفاظ ہیں جو ایسے آدمی کے لیےغصے کی حالت میں استعمال کیے جا سکتے ہیں مگر نجانے کیوں ان الفاظ پر اکتفا کیا گیا۔ فلم کی موسیقی اچھی ہے۔ خاص طور پر "سنبھل سنبھل کے"،" پاور دی گیم" اور "لفظوں میں خرابی تھی"۔
مجموعی طور پر ورنہ کا شمار پاکستانی سنیما کی اب تک کی بہترین فلموں میں کیا جاسکتا ہے۔ سنیما ریوائول کے نام پر جو فلمیں پچھلے کچھ سالوں میں بنیں ہیں ان کے مقابلے میں ورنہ ایک بہت اچھی فلم ہے۔ پاکستانی سنیما کے بہتر مستقبل کے لیے یہ فلم اپنے قریبی سنیما میں جا کر ضرور دیکھیں۔