کورونا سے متعلق جعلی خبروں کے باعث سینکڑوں اموات ہوئیں: امریکی تحقیق

Published On 14 August,2020 05:37 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) ایک امریکی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا کے متعلق گمراہ کن اور جعلی خبروں کے نتیجے میں 800 اور ممکنہ طور پر اس سے کہیں زیادہ ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق افواہوں اور سازشی نظریات کے ذریعہ کووڈ19کے خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے حوالے سے مبینہ  انفوڈیمک‘ (اطلاعاتی وبا) پر تحقیق کے دوران ماہرین نے گائے کا گوبر کھانے اور بلیچ پینے سے اس وبا سے بچنے میں مدد کے متعلق جھوٹے دعووں سے ہونے والے نقصانات کا بھی جائزہ لیا۔

سائنسی میگزین امریکن جرنل آف ٹراپیکل میڈیسن اینڈ ہائجین میں شائع تحقیقی مقالے میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے متعلق افواہوں، بدنامی اور سازشی نظریات کے نتیجے میں دنیا بھر میں ہزاروں لوگوں کو پریشانیوں میں مبتلا ہونا پڑا حتی کہ اس کی وجہ سے بعض لوگ اپنی بینائی سے محروم ہوگئے جبکہ بہت سے لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔

آسٹریلیا، جاپان اورتھائی لینڈ سمیت مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے دسمبر2019 سے اپریل 2020 کے درمیان دستیاب اعدادو شمار کی بنیاد پر اپنی تحقیق پیش کی ہے۔

تحقیق کے مطابق ہم نے کووڈ19 سے متعلق آن لائن پھیلائے گئی افواہوں، بدنامی اور سازشی نظریات کا جائزہ لیا۔ اس میں فیکٹ چیکنگ ویب سائٹوں، فیس بک، ٹوئٹر، آن لائن اخبارات پر شائع ہونے والے مواد اورعوامی صحت پر مرتب ہونے والے ان کے مضمرات کا جائزہ لیا گیا۔

جائزے سے یہ انکشاف ہوا کہ تقریبا 800 افراد اس وقت ہلاک ہوگئے جب انہوں نے اس امید میں انتہائی تیز قسم کا الکوحل پی لیا کہ اس سے ان کا جسم بیماریوں سے پاک ہوجائے گا، مینتھال پینے کی وجہ سے 5900 لوگوں کو اسپتال میں داخل کرانا پڑا اور اس سے 60 افراد کی بینائی چلی گئی۔

انفیکشن سے بچنے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جھوٹی اطلاعات کی وجہ سے بھارت میں سینکڑوں افراد نے گائے کا پیشاب پی لیا یا اس کا گوبر کھالیا۔ سعودی عرب میں یہ گمراہ کن اطلاعات پھیلائی گئی کہ اونٹ کا پیشاب چونے کے پانی میں ملاکر پینے سے کورونا وائرس سے بچا جاسکتا ہے۔

سائنس دانوں نے ادرک کھانے، گرم موزے پہننے اور بطخ کی چربی سینے پر ملنے وغیرہ سے کورونا کی ہلاکت خیز وائرس سے بچنے جیسی افواہوں پر بھی تحقیق کی۔ تحقیق کے دوران متعدد سازشی نظریات کا بھی مطالعہ کیا گیا۔ مثلاً یہ وبا ایک حیاتیائی ہتھیار ہے جس کے لیے بل گیٹس مالی امداد فراہم کررہے ہیں تاکہ وہ اپنی ویکسین زیادہ سے زیادہ فروخت کرسکیں۔

اس رپورٹ میں 87 ملکوں سے 25 زبانوں میں دستیاب اعدادو شمار کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

تحقیق کے دوران پتہ چلا کہ بعض ایشیائی ملکوں میں کورونا وائرس سے متاثرہ شہریوں اور اس وبا کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ہیلتھ ورکروں کو بدنام کرنے کی مسلسل کوششیں کی گئیں۔ انہیں لوگوں کے طعن و تشنیع کا نشانہ بننا پڑا۔ حتی کہ بعض اوقات انہیں مارا پیٹا بھی گیا۔

محققین نے لکھا ہے کہ وبا کے دوران ایشائی نسل کے لوگوں اور ہیلتھ کیئر کی سرگرمیوں میں شامل کارکنوں کو برا بھلا کہا گیا اورانہیں جسمانی نقصان پہنچایا گیا۔

تحقیق کے نتائج کے مدنظر سائنس دانوں نے حکومتوں اور بین الاقوامی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس طرح کے مبینہ فرضی خبروں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے سخت اقدامات کریں۔ انہوں نے صحیح اطلاعات اور معلومات کو عام کرنے میں سوشل میڈیا کمپنیوں کے ساتھ تعاون کرنے کی بھی اپیل کی ہے۔
 

Advertisement