نیو یارک: (ویب ڈیسک) عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ نیا کورونا وائرس ہوا میں تیرنے والے ڈروپلٹس کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے۔ اس سے قبل سائنس دانوں نے عالمی ادارے پر تنقید کی تھی کہ وہ عوام کو انتباہ کرنے میں سست روی کا شکار رہا۔
تفصیلات کے مطابق سائنس دانوں کی جانب سے بار بار کہا جا رہا تھا کہ عالمی ادارہ عام افراد کو اس خطرے سے خبردار کرنے میں ناکام رہا ہے۔ دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کا موقف رہا ہے کہ کووِڈ 19 وبا کو خسرے اور ٹی بی کی طرز کی ہوا سے پھیلنے والی بیماری قرار دینے کے لیے ٹھوس ثبوت درکار ہیں۔
امریکا کی کولوراڈو یونیورسٹی سے وابستہ ماہر کیمیا جوز جِمنیز نے خط شائع کیا تھا، جس میں عالمی ادارہ صحت سے کہا گیا تھا کہ وہ نئے کورونا وائرس کو ہوا سے پھیلنے کی صلاحیت کا حامل قرار دے۔
جوز جمنیز کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت کا سست ردعمل اس وائرس کے پھیلاؤ کو قابو کرنے کی کوششوں میں سستی کا باعث بھی بن رہا ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق یہ بات اہم ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایسے کسی اعلان کا مطلب ہے کہ دنیا بھر کی حکومتوں کو ان اقدامات کی ہدایات جاری کی جائیں تاکہ وہ ہر طبقے کے افراد پر نئے ضوابط لاگو کریں۔
جمعرات کو اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت نے اپنے اعلان میں یہ بھی کہا کہ نئے کورونا وائرس کے ہوا سے پھیلنے کے حوالے سے مزید تحقيق کی ضرورت ہے۔
کورونا وائرس کا حامل ڈروپلیٹ ہوا میں کتنی دیر ٹھہر سکتا ہے؟ یہ سوال اصل میں اس پورے معاملے پر اختلاف کی بنیاد ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ چھینکنے یا کھانسنے سے نئے کورونا وائرس کے متاثرہ کسی شخص سے خارج ہونے والے ڈروپلیٹس قریب ایک میٹر تک ہوا میں رہ سکتے ہيں۔
دوسری جانب بعض سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ ڈروپلیٹ اس سے کہیں زیادہ دور تک ہوا میں رہ سکتے ہیں۔ کچھ کا کا خیال ہے کہ اگر نیا کورونا وائرس خسرے یا ٹی بی کی طرح ہوا سے پھیلنے والا ہوتا، تو دنیا بھر میں اس کا پھیلاؤ کہیں زیادہ ہوتا۔
محققین کا کہنا ہے کہ بند مقامات یا پرہجوم جگہوں پر جہاں سماجی فاصلے کے ضوابط کا درست انداز سے خیال نہ رکھا جائے، وہاں یہ وائرس ہوا سے پھیل سکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کسی ایسے بند مقام پر جہاں وینٹی لیشن کا نظام اچھا نہ ہوا، وہاں بھی یہ وائرس ہوا کے ذریعے پھیلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔