بیجنگ: (ویب ڈیسک)چین میں کورونا ویکسین ٹرائل کے دوسرے مرحلے میں بھی محفوظ اور مؤثر قرار دیدی گئی۔
تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں متعدد کمپنیوں کی جانب سے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسینز کی تیاری پر کام ہورہا ہے، مگر بہت کم انسانی آزمائش کے مرحلے میں داخل ہوسکی ہیں۔
ان ابتدائی ویکسینز میں سے ایک چین میں تیار ہورہی ہے اور مئی میں انسانی آزمائش کے ابتدائی نتائج جاری کیے گئے تھے جو حوصلہ افزا قرار دیئے گئے تھے۔
چینی کمپنی کین سینو بائیو لوجک اس ویکسین کو چینی فوج کے تحقیقی یونٹ اکیڈمی آف ملٹری سائنس (اے ایم ایس) کے ساتھ مل کر تیار کررہی ہے۔
ایڈ 5 این کوو نامی ویکسین چین کی 8 ویکسینز میں سے ایک ہے جو انسانی آزمائش کے مرحلے سے گزر رہی ہیں، جبکہ اسے کینیڈا میں بھی انسانی آزمائش کی اجازت مل چکی ہے۔
اس ویکسین کے انسانوں پر ٹرائل کے دوسرے مرحلے کے نتائج بھی جاری کیے گئے ہیں، جس میں اسے لوگوں کے لیے محفوظ اور کووڈ 19 کے خلاف مدافعتی ردعمل فراہم کرنے میں مددگار قرار دیا گیا ہے۔
ویکسین کے دوسرے مرحلے میں اس کے محفوظ ہونے اور وائرس کے خلاف مدافعت یا امیونٹی پیدا کرنے کی صلاحیت کو جانچنے کے لیے تھا اور اس میں پہلے مرحلے کے مقابلے میں زیادہ افراد کو شامل کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک چھوٹا گروپ 55 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کا تھا۔
تاہم محققین نے اس بات پر زور دیا کہ رضاکاروں کو ویکسینیشن کے بعد نئے کورونا وائرس سے متاثر کرنے کی کوشش نہیں کی گئی تو ابھی مکمل طور پر تعین کرنا ممکن نہیں کہ یہ کووڈ 19 سے موثر طریقے سے تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسرے مرحلے میں بھی ویکسین کے محفوظ ہونے اور کووڈ 19 کے خلاف موثر ہونے کے شواہد سامنے آئے ہیں جیسے پہلے مرحلے میں دریافت ہوئے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ تجرباتی ویکسین کی جانچ پڑتال کے لیے اہم پیشرفت ہے اور تیسرے مرحلے کے ٹرائل ابھی جاری ہیں۔
خیال رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ڈھائی سو سے زائد کورونا ویکسینز کی تیاری پر کام ہورہا ہے اور ان میں سے 17 انسانی آزمائش کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔
اس چینی ویکسین میں انسانوں کو متاثر کرنے وال عام نزلہ زکام کے وائرس ایڈینو وائرس کو استعمال کیا گیا تاکہ ایسا جینیاتی مواد مدافعٹی نظام کو فراہم کیا جاسکے جو خلیات میں نئے کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین کے بارے میں معلومات فراہم کرسکے۔
یہ خلیات پھر اسپائیک پروٹین تیار کرسکیں گے اور لمفی نوڈز میں سفر کریں تاکہ مدافعتی نظام ایسی اینٹی باڈیز تیار کرسکے جو اسپائیک پروٹین کو پہچان کر کورونا وائرس سے لڑسکے۔
ویکسین کے ٹرائل کے دوسرے مرحلے میں 508 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے 253 کو ویکسین کی ہائی ڈوز، 129 کو لو ڈوز جبکہ 126 کو ایک طبی مادہ placebo فراہم کیا گیا۔
دوتہائی افراد (309) کی عمریں 18 سے 44 سال کے درمیان تھیں، ایک چوتھائی (134) کی 45 سے 54 جبکہ 13 فیصد (65) 55 سال یا اس سے زائد عمر کے تھے۔
ان رضاکاروں میں انجیکشن کے فوری بد 30 منٹ تک کسی قسم کے مضر اثر کو دیکھا گیا اور پھر ان کا جائزہ 14 سے 28 دن تک لیا گیا تاکہ انجیکشن کے مقام یا جسمانی نظام میں اس کے مضر اثرات کو دیکھا جاسکے۔
ان رضاکاروں کے خون کے نمونے ویکسینیشن سے کچھ دیر قبل اور اس کے 14 اور 28 دن بعد لیکر اینٹی باڈی ردعمل کو دیکھا گیا۔
محققین نے دریافت کیا کہ 95 فیصد یعنی 253 میں سے 241 ہائی ڈوز والے افراد اور 91 فیصد کم ڈوز والے گروپ میں وائرس سے لڑنے والے ٹی سیلز یا اینٹی باڈی مدافعتی ردعمل ویکسینیشن کے 28 دن بعد دیکھا گیا۔
ویکسین کے نتیجے میں وائرس ناکارہ بنانے والے اینٹی باڈی ردعمل کو ہائی ڈوز والے 59 فیصد جبکہ کم ڈوز والے 47 فیصد افراد میں دیکھا گیا جبکہ وائرس کو جکڑنے والا اینٹی باڈی ردعمل ہائی ڈوز والے 96 فیصد اور کم ڈوز والے 97 فیصد افراد میں دریافت کیا گیا۔
اس کے مقابلے میں placebo والے گروپ میں کسی قسم کے اینٹی باڈی ردعمل کو دریافت نہیں کیا گیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ کم یا زیادہ ڈوز سے بھی لوگوں میں کورونا وائرس ناکارہ بنانے والا ردعمل پیدا ہوتا ہے جبکہ ٹی سیلز ردعمل ہائی ڈوز والے گروپ کے 90 فیصد اور کم ڈوز والے 88 فیصد افراد میں دریافت کیا گیا۔
تحقیق کے دورانیے کے دورران جو سب سے زیادہ مضر اثرات دیکھے گئے ان میں بخار، تھکاوٹ اور انجیکشن کے مقام پر تکلیف نمایاں تھے، تاہم ان کی شدت معمولی یا معتدل تھی۔
زیادہ ڈوز والے گروپ میں مضر اثرات کی شدت کم ڈوز والوں کے مقابلے نمایاں حد تک زیادہ تھی۔ ٹرائل کے نتائج طبی جریدے دی لانیسٹ میں شائع ہوئے۔