نئی دہلی : (ویب ڈیسک ) بھارتی ریاست کیرالا میں خطرناک نپاہ وائرس کے باعث لاک ڈاؤن جیسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور لوگوں کیلئے ماسک کے استعمال کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔
بھارت میں دو سال کے وقفے کے بعد ایک بار پھر ’نپاہ‘ نامی خطرناک وائرس پھیلنے لگا ہے، ریاست کیرالا میں اب تک چار کیسز سامنے آچکے ہیں جبکہ دو افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔
بگڑتی صورتحال کی وجہ سے کنور، وائناڈ اور ملاپورم میں الرٹ جاری کرتے ہوئے ان علاقوں اور یہاں کے ہسپتالوں میں ماسک پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
کوزی کوڈ کے ضلع مجسٹریٹ نے مذکورہ 7 پنچایتوں ، تعلیمی ادارے، بینک اور سرکاری اداروں کو بند رکھنے کا حکم دیا ہے، جبکہ کیرالا میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی کی ٹیم نپاہ وائرس کی تحقیقات کرے گی۔
’نپاہ‘ وائرس سے دونوں ہلاکتیں ضلع کوزی کوڈ میں ہوئیں، جہاں ایک سال قبل بھی مذکورہ وائرس پھیلا تھا اور متعدد اموات ہوئی تھیں۔
ریاست کیرالا میں ستمبر 2021 میں بھی ’نپاہ‘ وائرس پھیلا تھا اور حیران کن طور پر مذکورہ ضلع میں ہی اس سے اموات ہوئی تھیں، اس سے قبل بھی مذکورہ ریاست میں یہی وائرس پھیل چکا تھا۔
’نپاہ‘ وائرس کیا ہے؟
یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں پھیلتا ہے اور یہ خطرناک وائرس پہلی بار 1998 میں ملائیشیا کے جزائر نما علاقوں میں چمگادڑوں اور بعد ازاں سوئروں میں تشخیص ہوا تھا۔
مذکورہ وائرس ملائیشیا کے علاقے ’نپاہ‘ میں پہلی بار سامنے آیا، جس وجہ سے اس کا نام بھی یہی رکھا گیا اور جلد ہی مذکورہ وائرس وہاں کے دیگر علاقوں کے جانوروں میں پھیل گیا۔
بعد ازاں ’نپاہ‘ وائرس آسٹریلیا میں بھی چمگادڑوں اور خنزیروں سمیت دیگر جانوروں میں پایا گیا، جہاں بعض انسان بھی اس میں مبتلا ہوئے۔
سال 2004 میں ’نپاہ‘ وائرس کی تشخیص بنگلادیش میں بھی ہوئی اور وہاں بھی ابتدائی طور پر اس سے جانور متاثر ہوئے لیکن بعد ازاں یہ انسانوں میں بھی پایا گیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں آسانی سے منتقل ہونے والا خطرناک وائرس ہے جب کہ یہ ایک سے دوسرے انسان میں بھی منتقل ہوسکتا ہے۔
بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق مذکورہ وائرس میں مبتلا افراد کے 40 سے 75 فیصد ہلاک ہوجانے کے امکانات ہوتے ہیں،تاہم اگر فوری طور پر بیماری کی تشخیص ہو تو اچھے نتائج مل سکتے ہیں۔
مذکورہ وائرس کا بھی کوئی علاج یا دوائی دستیاب نہیں، تاہم ماہرین صحت علامات کے مطابق مریض کا علاج کرکے اسے صحت مند بنانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وائرس انسانی زندگی کے لیے اس لیے خطرناک سمجھا جاتا ہے کیوں کہ اس کی تشخیص بہت دیر سے ہوتی ہے اور متاثرہ شخص میں بعض مرتبہ ایک ماہ بعد علامات سامنے آتی ہیں اور تب تک دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
اس کی عام علامات میں شدید بخار، سر میں درد، سر میں سوزش، گلے میں سوزش، کھانسی، سانس لینے میں مشکلات، جسم میں درد، تھکاوٹ اور بے چینی شامل ہیں۔
یہ وائرس عام طور پر سوئروں، چمگادڑوں، کتوں، گھوڑوں اور اسی طرح کے دیگر گھریلو جانوروں میں بھی ہوسکتا ہے، جہاں سے یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔