نیویارک : (ویب ڈیسک ) حال ہی میں امریکی ماہرین کی ایک طویل تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بلڈ ٹیسٹ سے قبل از وقت فالج کے خطرات کی نشاندہی ہو سکتی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق عام طور پر جسم کے بعض حصوں کے مفلوج یا ناکارہ ہونے کو فالج کی علامات سمجھا جاتا ہے اور فالج کے خطرات کی نشاندہی کرنا مشکل ہوتا ہے، اس کے لیے ایم آر آئی، سی ٹی سکین اور بہت سارے بلڈ ٹیسٹس سمیت دوسری چیزوں کو بھی دیکھا جاتا ہے۔
تاہم اب ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ اگر ایک خاص طرح کا بلڈ ٹیسٹ کیا جائے تو اس سے قبل از وقت فالج کے خطرات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔
طبی جریدے سٹروک میں شائع تحقیق کے مطابق امریکی ماہرین نے کئی دہائیوں سے مریض افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لے کر ان کے فالج ہونے کی وجوہات تلاش کیں ، ماہرین نے فالج کا شکار ہونے والے افراد کی جانب سے کرائے جانے والے بلڈ ٹیسٹس سمیت دوسرے ٹیسٹس کا بھی جائزہ لیا اور پھر نتیجہ اخذ کیا۔
ماہرین نے مرد اور خواتین کے ڈیٹا کا جائزہ لیا اور زیادہ تر رضاکاروں کی عمریں 45 برس تک تھیں اور ماہرین نے ان میں فالج کی عام قسم اکیمک سٹروک (ischemic stroke) سمیت انجری سٹروک کا جائزہ لیا۔
ماہرین نے پایا کہ انفلیمیشن یعنی تیزابیت یا سوزش کے ایک گروپ کے متحرک ہونے کی وجہ سے زیادہ تر افراد فالج کا شکار بن سکتے ہیں۔
بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے انفلیمیشن (inflammation) کا الگ ٹیسٹ بھی ہوتا ہے جبکہ ماہرین اس کو مزید جاننے کے لیے مختلف پروٹینز کے ٹیسٹ بھی کرواتے ہیں اور پروٹینز کا نارمل رینج سے زیادہ ہونا کسی بیماری کی نشاندہی کرتا ہے۔
ماہرین کے مطابق مونوسائٹ سمیت دیگر پروٹینز کی نارمل سے زائد مقدار فالج کے خطرے کی علامات کو ظاہر کرتا ہے اور اگر متعدد انفلمیٹری پروٹینز نارمل رینج سے زائد ہوں تو اس سے عام افراد میں فالج کے شکار ہونے کے امکانات چار فیصد سے زائد ہوجاتے ہیں۔
ماہرین نے مذکورہ معاملے پر کہا کہ انفلیمیٹری پروٹینز یا گروپس کے بلڈ ٹیسٹس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے ۔