معروف شاعر، ادیب، افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی کی گیارہویں برسی

Published On 10 Jul 2017 05:20 PM 

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا، میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا۔ آج شاعر، ادیب، افسانہ نگار، صحافی، مدیر اور کالم نگار احمد ندیم قاسمی گیارہویں برسی ہے۔

لاہور: (دنیا نیوز) احمد شاہ اعوان، جو دنیا میں احمد ندیم قاسمی کے نام سے جانے گئے۔ پنجاب کی وادی سون سکیسر کے ضلع خوشاب کے گاؤں انگہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1926ء میں پہلا شعر کہا، انکی پہلی نظم 1931ء میں مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر روزنامہ سیاست لاہور میں شائع ہوئی۔ وہ متعدد اخبارات و رسائل سے منسلک رہے۔ احمد ندیم قاسمی کا شمار ترقی پسند تحریک کے نمایاں مصنفین میں ہوتا تھا اور اسی وجہ سے انہیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ احمد ندیم قاسمی نے افسانہ نگاری اور شاعری سے شہرت پائی، وہ افسانوں کے 17 اور شاعری کے 8 مجموعوں سمیت 50 سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔ احمد ندیم قاسمی 10 جولائی 2006ء کو حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے۔ کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ احمد ندیم قاسمی ایک کثیر الجہات ادبی شخصیت تھی۔ ایک باکمال شاعر، لاجواب افسانہ نگار، اعلیٰ نقاد اور منفرد کالم نگار کی حیثیت سے انہوں نے کئی عشروں تک اپنے آپ کو منوایا۔ اردو ادب کی جتنی خدمت انہوں نے کی اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ وہ ایک ناقابل فراموش شخصیت ہیں جن کے بارے میں جتنا لکھا جائے اتنا کم ہے۔ 20 نومبر 1916ء کو ضلع خوشاب کے گاؤں انگہ میں پیدا ہونے والے احمد ندیم قاسمی کا اصل نام احمد شاہ تھا۔ ان کی مجموعی کتابوں کی تعداد 50 کے قر یب ہے۔ قاسمی صاحب نے 1935ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔ ان کے ایک بھائی پیرزادہ محمد بخش قاسمی اور ایک ہمشیرہ تھی۔ انہوں نے کئی ادبی جرائد کے مدیرکی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ان جرائد میں پھول تہذیب نسواں، ادب لطیف، سویرا نقوش اور ان کا اپنا جریدہ فنون شامل ہیں۔ انہوں نے کئی دہائیوں تک مختلف اخبارات میں کالم بھی لکھے۔ ان کے کالموں حرف و حکایت اور لاہور لاہور ہے کو بھی بے حد پذیرائی ملی۔ ان کی شاعری میں روایت اور جدت کی بڑی اعلیٰ آمیزش ملتی ہے۔ ان کی نظم کو بھی جدید نظم کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اپنے اسلوب اور موضوعات کے حوالے سے قاری کو ایک نئے جہان میں لے جاتی ہے۔ 1948ء میں انہیں انجمن ترقی پسند مصنفین پنجاب کا سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔ 1949ء میں انہیں پاکستان بھر میں اس تنظیم کا سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا۔ 1962ء میں احمد ندیم قاسمی نے اپنا ذاتی جریدہ فنون کی اشاعت کا آغاز کیا۔ اس سلسلے میں انہیں ملک کے ممتاز شاعروں اور ادیبوں کی معاونت حاصل تھی۔ شاعرہ پروین شاکر کی ذہانت کو انہوں نے ہی پہچانا اور ان کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ یہی سبب تھا کہ پروین شاکر کا فن اوج کمال کو پہنچ گیا۔ خالد احمد اور نجیب احمد کو وہ اپنی معنوی اولاد کہتے تھے۔ اس کے علاوہ خدیجہ مستور اور حاجرہ مسرور ان کی منہ بولی بہنیں تھیں۔ ان سب کی تخلیقات فنون میں باقاعدگی سے شائع ہوتی رہیں۔ 1974ء میں وہ مجلس ترقی ادب سے وابستہ ہو گئے۔ دسمبر 2011ء میں پروفیسر فتح محمد ملک اور عطاالحق قاسمی نے ان کی زندگی اور کارناموں کے حوالے سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔ ان کے ادبی کارناموں کو شاعروں ادیبوں اور نقادوں نے بہت سراہا۔ اگرچہ کچھ ادبی حلقوں کی طرف سے ان پر تنقید بھی کی گئی۔ قاسمی صاحب کے افسانوی مجموعوں کی تعداد 16ہے‘ جن میں چوپال بگولے طلوع و غروب آنچل آس پاس، در و دیوار، گھر سے گھر تک، کپاس کا پھول، برگ حنا، آبلے، بازار حیات، سناٹا، نیلا پتھر، کوہ پیما اور پت جھڑ شامل ہیں۔ جہاں تک شعری مجموعوں کا تعلق ہے تو ان میں رم جھم جلال و جمال شعلہ گل دشت وفا، دوام، محیط اور ارض و سما نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ جہاں تک احمد ندیم قاسمی کی افسانہ نگاری کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پریم چند کے بعد دیہی زندگی کی جس خوبصورت طریقے سے انہوں نے عکاسی کی ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ان کے افسانوں میں ہمیں سماجی اور معاشی ناہمواریوں کے حوالے سے بہت کچھ پڑھنے کو ملتا ہے۔ ترقی پسند سوچ کی تمام پرچھائیاں ان کے افسانوں میں ڈھونڈی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے افسانوں سے یہ حقیقت بھی منکشف ہوتی ہے کہ انسانی نفسیات کے حوالے سے ان کام مطالعہ بہت زیادہ ہے۔ وہ انسانی فطرت کے گوشوں کو بے نقاب کرنے کا ہنر بھی خوب جانتے ہیں۔ ان کی نثر بھی اثر انگیز اور دلکش ہے۔ ویسے تو ان کے شاہکار افسانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن یہاں ان کے چند افسانوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو ہر دور کے عظیم ترین افسانوں میں شمار ہوں گے۔ ان میں طّبِر، گھر سے گھر تک، سفارش، پرمیشر سنگھ، غرور نفس، بے گناہ، خربوزے، کپاس کا پھول، بوڑھا سپاہی اور سناٹا شامل ہیں۔ اگر احساس کمتری جیسے مرض کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا ہو تو طبر سے زیادہ اعلیٰ درجے کا افسانہ کم ہی ملے گا اور اگر ایک دولت کے نشے میں مست خاتون کے غروروتکبر کو جانتا ہو، جس کی ایک مرد سے محبت بھی اس کے تکبر کی چادر میں لپٹی ہوتی ہے تو پھر غرور نفس سے بڑا افسانہ اور کیا ہو گا۔ احمد ندیم قاسمی نے پنجاب کے جن دیہی علاقوں کی زندگی کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے ان میں جنوبی پنجاب شامل نہیں کیونکہ وہ خود لکھتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کی ثقافت اور وہاں کے مسائل کے بارے میں زیادہ ادراک نہیں رکھتے۔ اس لیے انہوں نے جنوبی پنجاب کی زندگی کو اپنے افسانوں کا موضوع بنانے سے احتراز کیا۔ قاسمی صاحب کی شاعری بھی کمال کی ہے۔ خاص طور پر وہ نظم کے بڑے مضبوط شاعر ہیں۔ غزل میں وہ شعری طرز احساس کے ساتھ ساتھ جدید طرز احساس کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ اس امتزاج نے ان کی شاعری کو نئی جہتوں سے آشنا کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا جمالیاتی طرز احساس بھی پوری توانائی کے ساتھ نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کریں۔ دور جب چاند افق میں ڈوبا تیرے لہجے کی تھکن یاد آئی، یاد آئے تیرے پیکر کے خطوط اپنی کوتاہی فن یاد آئی اک حقیقت سہی فردوس میں حوروں کا وجود حسن انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں ان کی قوت متخیلہ اور ندرت خیال بھی فکر انگیز ہے۔ ذرا یہ اشعار دیکھئے، لب خاموش سے افشا ہو گا راز ہر رنگ میں رسوا ہو گا دل کے صحرا میں چلی سرد ہوا ابر گلزار پہ برسا ہو گا جس بھی فنکار کا شہکار ہو تم اس نے صدیوں تمہیں سوچا ہو گا احمد ندیم قاسمی کی حب الوطنی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ زبردست قوم پرست تھے۔ اس سلسلے میں ان کا یہ شعر ہی کافی ہے۔ خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو نظموں میں ان کی نظم پتھر کو شاہکار کی حیثیت حاصل ہے۔ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو احمد ندیم قاسمی کے فن کا محاکمہ اس مختصر مضمون میں نہیں ہو سکتا۔ انکا فن لافانی ہے اور وہ کبھی نہیں بھلائے جا سکتے۔ قاسمی صاحب کو تمغہ حسن کارکردگی اور تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ بھارت کے مشہور ہدایتکار اور نغمہ نگار گلزار قاسمی صاحب کے بہت بڑے مداح ہیں اور ان سے ملنے وہ دوبار پاکستان آ چکے ہیں۔ 10 جولائی 2006ء کو احمد ندیم قاسمی 89 برس کی عمر میں عالم جاوداں کو سدھار گئے۔ انہوں نے جو ادبی خزانہ چھوڑا ہے، ادب سے شغف رکھنے والے لوگ اس سے ہمیشہ مستفید ہوتے رہیں گے۔

 (یہ تحریر روزنامہ دنیا میں شائع ہوئی)