27 ویں آئینی ترمیم کی بازگشت

Published On 10 July,2025 02:42 pm

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) ستائیسویں آئینی ترمیم کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، قومی اسمبلی میں اضافی مخصوص نشستیں ملنے کے بعد جب حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت مل گئی تو شہرِ اقتدار میں بڑی قیاس آرائی نے جنم لیا۔

چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ صدر مملکت آصف علی زرداری کو ہٹا کر نیا صدر لائے جانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، یہ بھی کہا گیا کہ دو تہائی اکثریت شاید حکومت کو دلوائی ہی اس لئے گئی ہے کہ ستائیسویں ترمیم لائی جائے، کچھ حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ حکومت دو تہائی اکثریت حاصل ہونے کے بعد پارلیمان کی مدت دس سال کیلئے بڑھا سکتی ہے، مگر کیا واقعی ایسا ہونے جارہا ہے؟

آئین میں ترمیم ایک ارتقائی عمل ہے جو وقت کی ضرورت کے ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے، اسی لئے 1973 ء کے آئین میں اب تک 26 ترامیم ہو چکی ہیں، اٹھارہویں اور چھبیسویں ترامیم ایسی آئینی ترامیم ہیں جن میں آئین کے سٹرکچر کو بڑے پیمانے پر تبدیل کیا گیا تھا، 2010ء میں اٹھارہویں ترمیم کرتے ہوئے وفاق کے بڑے اختیارات صوبوں کے حوالے کر دیئے گئے تھے، اس ترمیم کے بعد پاکستان کے موجودہ معاشی اور گورننس مسائل کا ذمہ دار اسی ترمیم کو سمجھا جاتا ہے مگر ( ن) لیگ اور خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی اس کا دفاع کرتی نظر آتی ہیں۔

2024ء کے آخر میں چھبیسویں آئینی ترمیم کر کے اعلیٰ عدلیہ کے سٹرکچر میں بڑی تبدیلیاں کر کے عدالتی فعالیت یعنی جوڈیشل ایکٹوزم کا دروازہ بند کر دیا گیا، ملک میں پہلی مرتبہ آئینی بنچز کی تشکیل عمل میں آئی اور سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے اختیارات ختم کر دیئے گئے، ہائیکورٹ کے ججز کے تبادلوں کا میکانزم بنا دیا گیا جس کے بعد عدلیہ کی دیگر ریاستی ستونوں کے ساتھ جاری کشمکش تقریباً ختم ہو کر رہ گئی، جو کام حکومتیں اور مقتدرہ ماضی میں زور زبردستی نہ کر پائے چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے ہوگیا اور ملک سے ہیجانی کیفیت کا کافی حد تک خاتمہ ہوا۔

جب حکومت نے دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باوجود جے یو آئی ایف کی حمایت سے اپنے نمبرز پورے کر لئے اور چھبیسویں ترمیم کی خبریں زیر گردش آئیں تو اس وقت حکومت کی جانب سے ایسی خبروں کی تردید کی گئی اور انہیں قیاس آرائیاں قرار دیا گیا، مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت نے یہ طے کر لیا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد نہ صرف نئے چیف جسٹس آف پاکستان کے تقرر کا طریقہ کار تبدیل کرنا ہے بلکہ اعلیٰ عدالتوں کے اختیارات کو لگام ڈالنے کیلئے بھی ترمیم کرنی ہے۔

حکومتی وضاحتوں اور تردیدوں کے باوجود پس پردہ کوششیں جاری رہیں، پہلی کوشش میں نمبر پورے نہ ہونے پر چند ہفتوں بعد دوسری کوشش اکتوبر 2024ء میں کی گئی جو کامیاب ہوگئی، جس کے بعد ملک میں عدالتی نظام کا منظر نامہ ہی تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔

چھبیسویں ترمیم کے منظور ہونے کے چند ہفتوں بعد ہی یہ خبریں آنے لگیں کہ ستائیسویں ترمیم کے ذریعے کچھ مزید اصلاحات لانے کا سوچا جا رہا ہے مگر ایسا نہ ہوا، اب حکومت کو جب دو تہائی اکثریت مل گئی ہے تو نہ صرف ایک مرتبہ پھر ستائیسویں ترمیم کی باتیں ہونے لگی ہیں بلکہ اب ملکی سیاسی منظر نامہ گزشتہ سال کی نسبت کافی حد تک تبدیل ہو چکا ہے، اب ستائیسویں ترمیم کے ذریعے عدالتی اصلاحات میں آئینی عدالت کے ججوں کی عمر بڑھانے اور آئینی عدالت کی مدت میں توسیع کے معاملات پر غور ہو رہا ہے، وہیں اقتدار کے ایوانوں کے محرکات کی تبدیلی کو بھی ستائیسویں ترمیم سے جوڑا جا رہا ہے۔

صدر مملکت آصف علی زرداری 8 فروری 2024ء کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کے پاور شیئرنگ فارمولے کے تحت صدر بنے اور پاکستان پیپلز پارٹی نے وفاقی کابینہ کا حصہ بننے کی بجائے آئینی عہدے لینے کا فیصلہ کیا، پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ کا حصہ اس لئے نہیں بنی کیونکہ وہ اُس وقت معاشی اور سیاسی مشکلات میں گھرے ہوئے ملک کی حکومت کا حصہ بن کر اپنی سیاست کو داؤ پر نہیں لگانا چاہتی تھی۔

پہلے اڑھائی سال (ن) لیگ اور آخری اڑھائی سال پیپلز پارٹی کی حکومت کا فارمولہ بھی سامنے رکھا گیا مگر پیپلزپارٹی نے مشکل صورتحال کا بوجھ اٹھانے کی بجائے آئینی عہدے لئے اور اپنی نظریں آنے والے انتخابات پر رکھنا شروع کر دیں، وقت گزرنے کے ساتھ پیپلز پارٹی کو احساس ہوا کہ یہ نظام تو چلتا دکھائی دے رہا ہے، اپریل 2024ء میں پیپلزپارٹی میں کابینہ کا حصہ بننے کی خواہش جاگی، یہی وجہ ہے کہ اسحاق ڈار کو نائب وزیر اعظم کا عہدہ دیا گیا تاکہ پیپلز پارٹی اگر وزارتیں لیتی ہے تو وزیر خارجہ بلاول بھٹو بنیں گے مگر اس پلان کے راستے میں رکاوٹیں آگئیں۔

مستقبل میں اس بات کے امکانات ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی وفاقی کابینہ کا حصہ بن سکتی ہے مگر ابھی تک اس کا ماڈل طے پانا باقی ہے، البتہ اب ایسا نہیں ہوگا کہ نصف مدت (ن) لیگ پوری کرے اور باقی کی نصف مدت پاکستان پیپلزپارٹی۔ ابھی تک کے طے شدہ معاملات واضح ہیں کہ شہباز شریف کی سربراہی میں ہی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی، سول ملٹری تعلقات جتنے اس دور میں مستحکم ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی، اس کا کریڈٹ صرف شہباز شریف کو جاتا ہے۔ ایسے میں شہباز حکومت کی بجائے کسی اور ماڈل پر جانا مقتدرہ کیلئے ایک بڑا رسک ہے۔

جہاں تک آصف علی زرداری کو ہٹائے جانے کی بات ہے تو ایسا بھی ممکن نظر نہیں آتا، حکومت پاکستان پیپلزپارٹی کے بغیر آئینی ترمیم کسی صورت نہیں کر سکتی، کیا پیپلز پارٹی ایک ایسی ترمیم کو سپورٹ کرے گی جس میں اسے ملک کی صدارت سے ہاتھ دھونے پڑیں؟ نہ صرف دو تہائی اکثریت پوری رکھنے کیلئے بلکہ سادہ اکثریت رکھنے کیلئے بھی حکومت کو پاکستان پیپلز پارٹی کی ضرورت ہے، جس کے پاس قومی اسمبلی میں 74 نشستیں ہیں۔

جو حلقے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ مقتدر حلقوں کی نظر ایوانِ صدر پر ہے تو موجودہ صورتحال میں یہ بھی درست نہیں، اگر ایوان صدر کی باگ ڈور سیاسی لوگوں کی بجائے کسی اور کے سنبھالنے کی قیاس آرائی مان بھی لی جائے تو موجودہ سٹرکچر کے ہوتے ہوئے صدر کا عہدہ محض رسمی اور طاقت کے بغیر ہے اور اسے طاقتور بنانے کیلئے سیاسی جماعتوں کو وہی غلطیاں دہرانا ہوں گی جو انہوں نے 90 ء کی دہائی میں کی تھیں اور اس کا خمیازہ بھگتا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ یہ ممکن نظر نہیں آتا، جہاں تک معاملہ پارلیمان کی مدت میں توسیع کا ہے تو ایسا کسی بھی سطح پر نہیں سوچا گیا اور اگر ایسا ہونا بھی ہے تو ایسی تجاویز کا ابھی وقت نہیں آیا۔