شہادتِ سیدنا حسین رضی الله عنہ

Published On 06 July,2025 12:20 pm

لاہور: (صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی) تاریخ حق و باطل میں خیرو شر کے لاکھوں معرکے برپا ہوئے، ہزاروں شہادتیں ہوئیں بالخصوص اسلام کے اولین دور میں لاتعداد عظیم شہادتوں سے لبریز ہے، تاہم یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ آج تک کسی اور شہادت کو اس قدر شہرت، قبولیت اور ہمہ گیر تذکرہ نصیب نہیں ہوسکا جتنا حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کو ہوا ہے۔

تقریباً 13 سو 85 سال گزر جانے کے باوجود بھی شہادت امام حسینؓ کا ذکر زندہ و تابندہ ہے، اس کی شہرت اور تذکروں میں آج تک کمی نہیں ہوئی۔

نواسہ رسول، جگر گوشہ بتول حضرت سیدنا امام حسینؓ اور ان کے مقدس خانوادہ کی قربانیاں اُمت مسلمہ کیلئے مشعل راہ ہیں، آپؓ کی قربانی پوری اُمت مسلمہ کو صبرواستقامت اور جذبہ ایثار کا درس دیتی ہے، میدان کربلا میں آپؓ نے یہ ثابت کر دیا کہ باطل قوتوں کے سامنے کبھی سر نہ جھکانا بلکہ اپنا سر کٹا دینا ہی سنت حسینیت ہے۔

ولادت باسعادت
ہجرت کے کٹھن سفر کو طے کئے چار برس کا عرصہ بِیت چکا تھا، شعبان المعظم کے پانچویں روز خانوادہِ نبوت میں جگر گوشہِ رسول حضرت فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا کی گود میں ایسے لَعل نے جنم لیا جو صبر واستقلال، عزیمت و شجاعت، ہمت و جوانمردی، بصیرت و فراست کااستعارہ بن گیا، جسے دنیا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مبارک نام سے یاد کرتی ہے۔

ولادت باسعادت کے بعد جب آپؓ کو رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کیا گیا تو آپﷺ بہت مسرور ہوئے، حضورﷺ نے آپؓ کے دائیں کان میں اذان دی اور بائیں کان میں تکبیر پڑھی، بے پناہ محبت کا اظہار فرمایا، دہن مبارک سے کھجور چبا کر تحنیک فرمائی اور برکت کیلئے اپنے لعاب ِدہن کو نواسے کے منہ میں ڈالا، اُن کو دعائیں دیں اور حسینؓ نام رکھا اور آپؓ کو اپنا بیٹا کہا، ساتویں دن ایک بکری سے عقیقہ کیا اورآپؓ کی والدہ سے فرمایا ان کا سر منڈوا کر بالوں کے برابر چاندی خیرات کرو۔ (اسد الغابہ، ج2،ص24،25،26)

نام و نسب
نام: حسینؓ، کنیت: ابوعبداللہ، القاب: سبط رسول اللہ اور ریحانۃ الرسول ہیں، والد: سیدنا علی المرتضٰیؓ بن ابوطالب اور والدہ: حضرت سیدہ فاطمہؓ بنت رسول اللہﷺ ہیں۔

حلیہ مبارک
سیرت نگاروں اور تاریخ نویسوں نے محدثین کی تحقیق کو مدار بنا کر آپ رضی اللہ عنہ کے حلیہ مبارک کا یوں نقشہ کھینچا ہے: آپؓ انتہائی خوبصورت، ذہانت و ذکاوت آپؓ کے چہرے پر جھلکتی ہوئی، قوت و شجاعت کے پیکر اور غیر معمولی خوبیوں کے مالک تھے، امام ابن کثیرؒ نے لکھا ہے کہ ’’امام حسینؓ کا جسم مبارک نبی اکرمﷺ کے جسم مبارک کے ساتھ مشابہت رکھتا تھا‘‘ (البدایہ و النہایہ: ج6، ص150)۔

حضرت علیؓ سے بھی روایت ہے کہ ’’امام حسنؓ کا جسم مبارک نصف اعلیٰ میں سر سے لے کر سینہ تک آنحضرتﷺ سے بہت زیادہ مشابہ تھا اور امام حسینؓ کا جسم مبارک نصف اسفل میں سینہ سے لے کر پاؤں تک آنحضرتﷺ سے بہت زیادہ مشابہ تھا۔ (جامع ترمذی: 3779)

فضائل و مناقب
حضورِ اقدسﷺ نے امام حسینؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ: ’’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسین ؓسے ہوں‘‘(کنز العمال: ج06،ص223)، حضرت ابو ایوب انصاریؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ آپﷺ کے سامنے اور گود میں کھیل رہے تھے، میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! آپ ﷺ اِن سے اس درجہ محبت کرتے ہیں؟، (آپ ﷺ نے ) فرمایا: میں کیسے اِن سے محبت نہ کرو؟ یہ دونوں میری دُنیا کے پھول ہیں، میں اِنہیں سونگھتا ہوں‘‘(المعجم الکبیر للطبرانی: 3990)، خود امام حسینؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’حسن ؓو حسینؓ نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں‘‘(المعجم الاوسط للطبرانی: 366)۔

ولادت و شہادت کی خوشخبری
حضرت عباسؓ کی زوجہ حضرت ام فضلؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: یارسول اللہﷺ! رات میں نے خواب دیکھا ہے کہ آپﷺ کے بدن کا کوئی ٹکڑا کٹ کر میری گود میں آگیا ہے، رسول اللہﷺ نے تعبیر بیان فرمائی کہ تم نے اچھا خواب دیکھا ہے، فاطمہؓ کے ہاں بچہ پیدا ہوگا، وہ تمہاری گود میں پرورش پائے گا(تم اْسے دودھ پلاؤ گی)، حضرت فاطمہؓ کے ہاں حضرت حسینؓ پیدا ہوئے، تو میری گود میں آئے، جیسا کہ رسول اللہﷺ نے بیان فرمایا تھا۔

ایک روز میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور حسینؓ کو میں نے رسول اللہ ﷺ کی گود میں ڈال دیا، رسول اللہﷺ کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں، حضرت امِ فضلؓ نے عرض کی: اے اللہ کے نبیﷺ! آپؐ کو کیا ہوا ہے؟ آنحضورﷺ نے فرمایا: میرے پاس حضرت جبرائیلؑ آئے اور انہوں نے خبر دی کہ میری امت میرے اس بیٹے کو شہید کر دے گی، وہ میرے پاس حسینؓ کی (خون آلود) سرخ مٹی کا کچھ حصہ بھی لائے۔ (مستدرک حاکم: 4818)

حضرت سعید بن راشدؒ سے مروی ہے کہ حضرت یعلی بن مرہؓ نے ان سے بیان کیا کہ وہ لوگ نبی کریمﷺ کے ساتھ ایک دعوت طعام کیلئے نکلے، حضرت حسینؓ گلی میں کھیل رہے تھے، نبی کریمﷺ آگے بڑھے اور اپنے ہاتھ پھیلا دیئے، حضرت حسینؓ اِدھر اُدھر بھاگنے لگے، نبی کریمﷺ ان کو ہنساتے رہے، یہاں تک کہ ان کو پکڑ لیا، آپﷺ نے ایک ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا سر کے اوپر رکھا اور بوسہ لیا اور فرمایا: ’’حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں حسینؓ سے ہوں، اللہ اُس سے محبت رکھتے ہیں جو حسینؓ سے محبت رکھتے ہیں‘‘ (ابن ماجہ: 114)۔

امام حسین ؓ کا علم
حضرت سیدنا امام حسینؓ میدانِ علم میں یگانہ روزگار (بے مثل) تھے، آپؓ نے بھی شہرِ علم جنابِ رسول اللہﷺ اور دروازہِ شہر علم امیرالمؤمنین حضرت سیّدنا علیؓ سے علمِ دین کا بیش بہا خزانہ پایا، آپؓ کی علم سے بھرپور گفتگو ایسی دلکش ہوا کرتی تھی کہ لوگوں کی یہ خواہش ہوتی کہ آپؓ خاموش نہ بیٹھیں بلکہ عِلم و حِکمت کی بہار آتی رہے، آپؓ نے اپنے جدِکریم، حضور نبی کریمﷺ سے، اپنے والدین اور حضرت عمر فاروقؓ سے احادیث سنیں اور روایت کیں۔(الاصابہ ، ج2 ، ص68)

آپؓ کا مْستقل علمی حلقہ مسجد نبوی میں لگا ہوتا، جس میں آپؓ لوگوں کو فقہی مسائل سے آگاہ فرماتے تھے، آپؓ کے اس علمی حلقے کی شہرت اتنی تھی کہ ایک بار حضرت امیرِ معاویہؓ سے کسی نے امام حْسینؓ کے متعلق پوچھا تو آپؓ نے فرمایا: مسجدِ نبوی شریف میں چلے جاؤ اور جس حلقے میں لوگ یوں مؤدب بیٹھے ہوں گویا ان کے سروں پر پرندے ہوں تو جان لینا کہ یہی حضرتِ امام حسینؓ کی مجلس ہے (تاریخ دمشق ،ج14،ص181)۔

شہادت کی شہرت
حضرت امام حسینؓ کی زندگی میں ہی آپؓ کی شہادت کی خبر ہر خاص و عام تک پہنچ چکی تھی، سیدنا امام حسینؓ کی شہادت کی یہ خبر حضورﷺ نے خود سیدہ عائشہ صدیقہ، حضرت اُم سلمیٰ، حضرت انس ابن مالک، حضرت ام فضل بن حارث، ابو امامہ البابلی، انس ابن حارث، زینب بنت جحش، مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہما کو دی اور پھر یہ خبر ان صحابہ کرامؓ سے تابعین نے آگے دی، گویا شہادت کی یہ خبر آپؓ کو بھی معلوم تھی، اہل بیت اور صحابہ کرامؓ کو بھی اس کا علم تھا۔

مظلومانہ شہادت
جب حضرت امیر معاویہؓ کا وصال ہوا تو لوگوں نے یزید کے ہاتھ پر بیعت کی، یزید نے اسی وقت ولید بن عتبہ جو مدینہ کا گورنر تھا کو لکھا کہ سب لوگوں کو بلاؤ اور میری بیعت لو اور بیعت کی ابتداء حسین ابن علیؓ سے کی جائے، اس نے آپؓ کو یزید کا پیغام دیا، حضرت امام حسینؓ نے ایک رات کی مہلت مانگی، رات کو امام عالی مقامؓ نے حضورﷺ کی قبر انور پر جا کر سلام عرض کیا اور شہر مدینہ چھوڑ کر حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب کے گھر مکہ مکرمہ میں جا کر قیام کرنے کا فیصلہ فرمایا اور کربلا روانگی تک یہیں قیام پذیر رہے۔

جب آپؓ کو اہل کوفہ کے لگاتار اور پے در پے خطوط اور بعدازاں حضرت امام مسلم بن عقیلؓ کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد کوفہ آنے کی تجویز پر کوفہ روانہ ہوئے تو اسی اثناء میں کوفہ کے حالات یکسر بدل گئے اور ابن زیاد نے گورنر کے طور پر ذمہ داری سنبھال لی، سیدنا امام حسینؓ کے قافلے کو عمرو بن سعد کی قیادت میں ایک لشکر نے روک لیا، آپؓ نے عمرو بن سعد کو فرمایا: میں تمہارے سامنے تین باتیں رکھتا ہوں ان میں سے کوئی ایک قبول کر لو۔

(1)۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ میرا راستہ نہ روکو، اسلام کے عظیم لشکر سرحدوں پر جو فتوحات میں مصروف ہیں اور جہاد کر رہے ہیں، میں جا کر کسی لشکر میں شریک ہو کر جہاد میں بقیہ زندگی گزارتا ہوں۔

(2)۔ دوسری صورت یہ کہ مجھے براہ راست یزید سے گفتگو کرنے دو، میں اس سے پوچھوں گا کہ وہ کس بنیاد پر بیعت کا مطالبہ کرتا ہے۔

(3)۔ اگر تمہیں یہ بھی قبول نہ ہو تو پھر مجھے چھوڑ دو میں کہیں دور دراز علاقوں میں چلا جاؤں گا، شہروں میں نہیں رہوں گا۔

عمرو بن سعد نے یہ شرائط ابن زیاد کو لکھ کر بھجوائیں مگر ان میں سے کسی کو قبول نہ کیاگیا بلکہ کہا گیا کہ سب سے پہلے یزید کیلئے امام حسینؓ سے بیعت لی جائے گی، امام حسینؓ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم ایسا کبھی نہیں ہو سکتا‘‘، آپؓ کے انکار پر جنگ شروع ہوگئی، واقعہ کربلا کا آغاز ہوگیا اور یکے بعد دیگرے اہل بیت اطہار کے جوانوں کو شہید کیا گیا، چھوٹے بڑے 17 اصحاب صرف اہل بیت رسولﷺ میں سے شہید کر دیئے گئے، بقایا آپؓ کے اصحاب تھے، اہل بیت میں سے صرف سیدنا امام زین العابدینؓ زندہ بچے۔

درسِ کربلا
دین اسلام کیلئے یہ جو اتنی بڑی قربانی دی گئی اور امامِ عالی مقامؓ نے اپنے ہاتھوں سے اپنے خاندان کے نوجوان شہداء کے زخموں سے چور لاشے اٹھائے، اس سے ہمیں درج ذیل درس ملتے ہیں۔

(1)۔ خدمت دین اور دعوتِ دین میں کبھی پس و پیش کا شکار نہ ہونا بلکہ جب بھی موقع میسر آئے دین کے نام پر چل پڑنا اور دین کی سر بلندی کیلئے ہر جائز کوشش کرنا۔

(2) ۔ دین کی حفاظت میں اپنے احباب، گھر بار بلکہ اپنی جان بھی راہِ خدا میں نذرانہ کرنا پڑے تو پیچھے مت ہٹنا بلکہ آگے بڑھ کر دین کی حفاظت کیلئے حق و باطل کے درمیان مضبوط دیوار کی مانند کھڑے ہو جانا اور ہر خواہش و آسائش کے مقابلے میں دین و ایمان ہی کو ترجیح دینا۔

(3) ۔ اگر دنیا کی اس مختصر سی زندگی پر مصائب و آلام اور تکالیف کے تاریک بادل بھی چھا جائیں تب بھی احکامِ خداوندی سے غفلت مت برتنا۔

(4)۔ نماز کی پابندی ہر حال میں کرنا، گھر میں ہو یا سفر میں، امن میں ہو یا میدانِ جنگ میں، ہر صورت پیشانی کو بارگاہِ خدا میں جھکنے کا عادی رکھنا۔

(5)۔ خدمتِ دین کی راہ میں مصائب و تکالیف رو برو ہوں تو اس سے گھبرا کر زبان پر شکوہ و شکایت نہ لانا بلکہ ’’اَلصَّبرُ عِندَ الصَّدمَۃِ الاُولٰی‘‘ (صحیح بخاری: 1303) پر کاربند رہنا، یعنی جس وقت مصیبت و آزمائش کا سامنا ہو اس وقت ہی صبر کرنا ہوتا ہے کیونکہ بعد میں تو صبر آ ہی جاتا ہے۔

(6)۔ جو وعدہ کرنا اس پر بے وفائی کا داغ نہ لگنے دینا بلکہ اس پر تکمیل و وفا کی مہر لگانا۔

(7)۔ اسلام و ایمان کی لازوال نعمت پا کر جھوٹ، غیبت، دھوکہ، فریب، ظلم اور حقوق اللہ و حقوق العباد کے ضائع کرنے کا طوق گلے میں نہ ڈالنا۔

(8)۔ دین اسلام ایک پر امن دین ہے اس لئے کسی پر ظلم نہ کرنا، یہاں تک کہ جانوروں پر بھی شفقت رکھنا۔ ہاں! اپنی جان و عزت کی حفاظت کیلئے تدابیر ضرور کی جائیں۔

(9)۔ مسلمان کا شیوہ محبتِ قرآن اور عادتِ قِراتِ قرآن ہے نہ کہ تلاوتِ قرآن سے دوری، نیزے پر بلند سرِ حسین کی تلاوت کو یاد رکھنا۔

(10) ۔ خاص کر خواتین کیلئے اس میں پیغام ہے کہ مصائب و آلام کے پہاڑ ہی کیوں نہ ٹوٹ پڑیں پھر بھی نوحہ و واویلہ اور کوئی غیر شرعی عمل نہ کرنا۔

شہداء کربلا
واقعہ کربلا کے سلسلہ میں مؤرخین کے درمیان کافی اختلاف ہے اور انہی اختلافات میں سے ایک بڑا اختلاف تعداد فوج امام حسینؓ اور تعداد فوج یزید ہے، بعض مؤرخین نے امامؓ کی فوج کو 72 تک ہی محدود کیا ہے، ان لوگوں نے صرف کربلا میں صبح عاشور سے لے کر عصر عاشور تک کے شہداء کو مانا ہے، جو لوگ اس تعداد سے زیادہ کے قائل ہیں، ان لوگوں نے ہر اس شہید کو شہدائے کربلا کے زمرے میں شمار کیا ہے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ جنگ کربلا سے منسلک تھے، مثلاً مسلم ابن عقیل کربلا میں شہید نہیں ہوئے، انہیں امامؓ نے سفیر کی حیثیت سے کوفہ روانہ کیا تھا۔

اسی طرح بعض نصرانی دربارکوفہ و شام میں مسلمان ہو کر یزید پر نفرین کرنے لگے تو یزید نے ان کو قتل کروایا یا پھر وہ بچے جو عصر عاشور خیموں کی پامالی میں شہید ہوئے یا راہ کوفہ و شام میں شہید ہوئے، یہ تقریباً 140 ناموں کی فہرست ہے، بعض کتب 108 نام اور بعض میں کم یا زیادہ نام ملتے ہیں، اس فہرست میں بنی ہاشم (کے 25 سے زیادہ شہدا) اور غلام (30 کے قریب) نیز دیگر (جیسے یوم عاشورہ سے پہلے کے شہداء وغیرہ یا دشمنوں کے لشکر سے آنے والے شہداء 10 کے قریب) کو شمار نہ کیا جائے تو مشہور تعداد 72 بنتی ہے۔

اگر بنی ہاشم کے شہدا کو ملا کر شمار کیا جائے تو شہدائے کربلا کی تعداد 136 ہو جائے گی، اگر قیس بن مسہر صیداوی، عبداللہ بن بقطر اور ہانی بن عروہ جو واقعہ کربلا سے پہلے کوفہ میں شہید کئے گئے تھے کو بھی اس واقعہ سے مربوط کر کے شمار کیا جائے تو کل تعداد 139 ہوگی، شہدائے کربلا میں بنی ہاشم کے سب شہداء حضرت ابوطالب کے ہی پوتے اور پڑپوتے تھے۔

علیؓ بن ابی طالب کے بیٹے (تعداد 7): حسین بن علیؓ (سالار لشکر)، عباس بن علیؓ (غازی عباس علمدار)، جعفر بن علیؓ، عبد اللہ بن علیؓ، عثمان بن علیؓ، عمر بن علیؓ، ابو بکر بن علیؓ۔

حسن بن علیؓ کے بیٹے (تعداد 5):ابو بکر بن حسنؓ، بشر بن حسنؓ ،عبد اللہ بن حسنؓ، قاسم بن حسنؓ، عمر بن حسنؓ۔

حسین بن علیؓ کے بیٹے (تعداد 2): علی اکبر بن حسینؓ ، علی اصغر بن حسینؓ۔

عبداللہ بن جعفر و زینب بنت علیؓ کے بیٹے (تعداد 2):عون بن عبد اللہ، محمد بن عبد اللہ۔

عقیل ابن ابی طالبؓ کی اولاد (بیٹے اور پوتے)، مسلم بن عقیل (جائے شہادت کوفہ تعداد 8): عبدالرحمان بن عقیل، عبد اللہ اکبر بن عقیل، جعفر بن عقیل، عبد اللہ بن مسلم بن عقیل، عون بن مسلم بن عقیل، محمد بن مسلم بن عقیل، جعفر بن محمد بن عقیل، احمد بن محمد بن عقیل۔

صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی ترجمان جماعت اہلسنت پاکستان صوبہ پنجاب، خطیب جامعہ الطافیہ سلطان الذاکرین ہیں، 27 سال سے مختلف جرائد کیلئے لکھ رہے ہیں۔