لاہور: (محمد علی) آپ 3500 سال پہلے کا تصور ذہن میں لائیں، یہ میسوپوٹیمیا ہے، موجودہ عراق۔ رات کے سناٹے میں دریائے فرات کے کنارے ایک بلند و بالا عمارت کی چھت پر کھڑا ایک نوجوان عالم آسمان کی وسعتوں میں گم ہے، اس کے سامنے مٹی کی ایک تختی ہے جس پر وہ کسی پیچیدہ گراف کی لکیریں کھینچ رہا ہے، وہ مشتری کی حرکت کو دیکھ رہا ہے، چاند کے زاویوں کو نوٹ کر رہا ہے اور زہرہ کے چمکنے بجھنے کے پیچھے راز تلاش کر رہا ہے۔
آسمان پر جھلملاتے ستارے قدیم بابلی (Babylonian) فلکیات دانوں کے لیے رازوں بھری کتاب تھے جسے وہ پڑھنا جانتے تھے مگر شاید انہیں اس بات کا علم نہیں ہوگا کہ وہ جو ریکارڈ کر رہے تھے وہ ہزاروں سال بعد بھی انسانوں کو حیران کرے گا اور سائنسدان اس تکنیک کو Calculus کا بنیادی پتھر قرار دیں گے، جی ہاں! بابلی فلکیات دان دوربینوں، سیٹلائٹس اور کمپیوٹرز کے بغیر بھی ستاروں کے اسرار جاننے میں کامیاب ہوگئے تھے اور یہی ان کے علم کی حیرت انگیز کہانی ہے۔
ستاروں کی زبان سمجھنے والے
بابلی تہذیب کے فلکیات دانوں کے لئے آسمان فقط قدرتی مظہر نہیں تھا بلکہ ایک زندہ کتاب تھی، وہ چاند کی گردش، سورج کی چمک اور زُہرہ کے چکر کو دیوی دیوتاؤں کے اشارے مانتے تھے، لیکن ان کے مشاہدے اور حساب کا سائنسی پہلو اتنا جاندار تھا کہ جدید سائنس بھی آج ان کا اعتراف کرتی ہے، انہوں نے Enuma Anu Enlil جیسے فلکیاتی جدول تخلیق کئے جن میں گرہنوں کی پیشگوئی سے لے کر زُہرہ کی روشنی کے دورانیے تک کی تفصیلات موجود تھیں۔
قدیم کیلکولس، ایک حیرت انگیز کہانی
آپ کو حیرت ہوگی کہ بابلی ماہرین نے مشتری (Jupiter) کی حرکت کو جانچنے کے لئے جو طریقہ استعمال کیا وہ آج کے Integral calculus کا پیش خیمہ ہے، انہوں نے ایک trapezoid (چوکور نما شکل) کی مدد سے مشتری کے مدار کا رقبہ نکالا اور اس سے یہ معلوم کیا کہ وہ کتنی دور جا چکا ہے، یہ کام آج سے تقریباً 1400 سال قبل ہوا جب دنیا میں کیلکولس کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔
بابلیوں کی ایک اور حیرت انگیز دریافتPlimpton 322ہے، جو مٹی کی بنی ہوئی ایک تختی ہے مگر اپنے اندر پورا ریاضیاتی جہان سموئے ہوئے ہے، اس پر ایسے جدول نقش ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ بابلی مثلث کے زاویوں اور اضلاع کے تناسب کو گہرائی سے سمجھتے تھے، کچھ ماہرین کے مطابق یہ دنیا کا سب سے پہلا ٹرگنومیٹری ٹیبل ہے جو بعد میں فلکی نقشوں ،نہری نظام اور تعمیرات میں مددگار ثابت ہوا۔
وقت اور زاویوں کا انوکھا نظام
بابلیوں نے زاویے کو 360 درجے میں تقسیم کیا، ہر ڈگری 60 منٹ پر مشتمل تھی اور ہر منٹ 60 سیکنڈ پر، یہ وہ نظام ہے جو آج بھی دنیا بھر میں وقت اور زاویوں کی پیمائش کے لئے استعمال ہوتا ہے، بابلی فلکیات دانوں نے Saros cycle دریافت کیا جو یہ بتاتا ہے کہ ہر 18 سال 11 دن بعد سورج یا چاند گرہن دوبارہ اسی انداز میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔
ابلیوں نے ستاروں کو تین حصوں میں تقسیم کیا اور ان کی بنیاد پر 12 برج بنائے، یہ وہی برج ہیں جو آج بھی علم نجوم (Horoscopes) اور فلکیات میں استعمال ہوتے ہیں، بابلیوں کے لکھے ہوئے ستاروں کے نقشے بعد میں یونان، مصر اور اسلامی دنیا تک پہنچے اور صدیوں تک سائنس کی بنیاد بنے رہے، بابلی نوشتیں صرف فلکی حرکات تک محدود نہیں تھیں ان میں موسمی پیشگوئیاں، اجناس کے نرخ حتیٰ کہ بادشاہوں کے لیے پیش گوئیاں بھی درج تھیں۔
آج کی دنیا میں بابلی ورثہ
اگر آپ آج اپنے سمارٹ فون پر چاند گرہن کا وقت دیکھتے ہیں یا GPS سے سمت معلوم کرتے ہیں تو یاد رکھیں کہ اس علم کی بنیاد اُن بابلی ماہرین نے رکھی تھی، اُن کے بغیر شاید نہ یونانی دانشمند بطلیموس (Ptolemy) اپنا ماڈل بنا پاتا اور نہ اسلامی ماہرینِ فلکیات اپنے دقیق جدول تیار کر سکتے۔
ماضی کا علم، مستقبل کی روشنی
قدیم بابلیوں نے ستاروں سے روشنی لی اور اسے علم کا چراغ بنا کر آنے والے زمانوں تک پہنچایا، بابلی فلکیات دان صرف آسمان کے ناظر نہیں تھے وہ اس کے رازوں کے محافظ بھی تھے، آج خلا میں گردش کرتے سیٹلائٹس اور دوربینیں ان کے خوابوں کی جدید شکل ہیں، وہ مٹی کی تختیوں پر جو علم لکھتے تھے وہ دراصل خلا کے ان دروازوں کی چابیاں تھیں جو انسان نے ہزاروں سال بعد کھولے۔
بابلی علم کے 5 انمول موتی
٭ زاویوں کو 360 درجوں میں تقسیم کیا
٭ چاند گرہن کےSaros cycle کی پیشگوئی
٭ دنیا کا پہلا ٹرگنو میٹری ٹیبل بنایا
٭ برجوں کی بنیاد
٭ گرافیکل حرکت کا تصور (Calculus کی ابتدائی شکل)
محمد علی تاریخی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد اور ویب سائٹوں پر شائع ہوتے ہیں۔