18 جون کو پنجاب حکومت نے معاملہ کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا اعلان کیا، 19 جون کو جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں کمیشن نے تحقیقات شروع کیں۔
لاہور: (تحریر: محمد اشفاق) پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری مکمل ہونے کے 3 سال 4 ماہ اور 26 روز بعد عدالتی حکم پر رپورٹ بالآخر پبلک کر دی، اس رپورٹ کا معاملہ عدالت عالیہ میں بھی 3 سال سے زائد عرصہ تک زیر سماعت رہا لیکن ابھی سانحہ کے استغاثہ اور مقدمہ کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ تفصیلات کے مطابق 17 جون 2014 کو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں 14 افراد شہید اور 100 سے زائد زخمی ہوئے، 17 جون کو ہی پولیس نے عوامی تحریک کے قائد طاہر القادری اور پارٹی رہنماؤں سمیت کارکنوں کیخلاف مقدمہ درج کر لیا، 18 جون کو پنجاب حکومت نے معاملہ کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا اعلان کیا، 19 جون کو جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں کمیشن نے تحقیقات شروع کر دیں، اس دوران اس انکوائری کمیشن کی تشکیل آفتاب باجوہ ایڈووکیٹ نے ہائیکورٹ میں چیلنج کر دی جبکہ عوامی تحریک بھی کمیشن کو تسلیم کرنے سے انکاری تھی، لیکن وقت گزرتا رہا اور پھر 9 اگست 2014 کو انکوائری کمیشن نے تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ ہوم سیکرٹری کے حوالے کر دی، لیکن پنجاب حکومت نے اس رپورٹ کو پبلک کرنے سے انکار کر دیا اور موقف اختیار کیا چونکہ انکوائری کمیشن کی تشکیل ہائیکورٹ میں چیلنج ہوچکی، اس لئے جب تک انکوائری کمیشن کی تشکیل کا معاملہ حل نہیں ہوتا اس وقت تک رپورٹ کو پبلک نہیں کیا جاسکتا۔
یہ خبر بھی پڑھیں:جسٹس نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک
ادھر ہائیکورٹ کے 4 فل بینچ بنے جو کبھی سربراہ تو کبھی کسی رکن کے ریٹائرہونے پر تحلیل ہوتے رہے، پھر 2017 میں جب جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے رپورٹ کو پبلک کرنے کا حکم دیا تو حکومتی ایوانوں میں بھونچال سا آگیا اور سوالات اٹھنے لگے کہ یہ معاملہ فل بینچ کے پاس زیر سماعت ہے اور سنگل بینچ کو کیس سننے کا اختیار نہیں، چنانچہ حکومت نے اس فیصلہ کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تو فل بینچ کے سربراہ جسٹس یاور علی سمیت تینوں ججزنے سماعت سے معذرت کرلی، جس کے بعد جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں3رکنی فل بینچ نے فریقین کی رضامندی سے انکوائری کمیشن کی تشکیل پراعتراضات کی حامل درخواستوں کونمٹادیااور صرف رپورٹ پبلک کرنے یا نہ کرنے کے قانونی نکتہ پر بحث کا آغاز کیا۔یوں سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کاتوکوئی فیصلہ نہ ہوسکا تا ہم صرف یہ پتا چلانے کیلئے کہ اس کا ذمہ دار کون تھا؟ انکوائری رپورٹ عام کرنے میں حکومتی ٹال مٹول نے 3 سال سے زائدعرصہ گزار دیا، اب مقدمہ کا فیصلہ ہونا باقی ہے جس میں گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔