سانحہ ماڈل ٹاؤن : رپورٹ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا

Published On 07 Dec 2017 09:08 AM 

جب کوئی بڑا مسئلہ ہو تو کمیشن بنایا جاتا ہے، یہ ایک اعلیٰ اختیاراتی تفتیشی کمیشن ہوتا ہے، رپورٹ کو اعلیٰ سطح پر پولیس انویسٹی گیشن کہہ سکتے ہیں۔

لاہور: (تجزیہ: جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد ) سانحہ ماڈل ٹا ؤ ن پر جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ سامنے آگئی ہے۔ ماڈل ٹاؤن کا واقعہ انتہائی سنگین تھا اور اس کی گونج آج بھی سنائی دے رہی ہے۔ حکومت پنجاب کا کہنا ہے کہ وہ قانونی طور پر اس رپورٹپر عمل کرنے کی پابند نہیں ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کیس کے حوالے سے اس رپورٹ کی قانونی حیثیت نہیں ہے، عدالتی کمیشن کی اہمیت اور قانونی حیثیت کیا ہے؟ میرے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ اس رپورٹ کی اپنی اہمیت ہے۔ جب کوئی بڑا مسئلہ ہو تو کمیشن بنایا جاتا ہے۔ یہ ایک اعلیٰ اختیاراتی تفتیشی کمیشن ہوتا ہے۔ آپ اسے اعلیٰ سطح پر پولیس انویسٹی گیشن کہہ سکتے ہیں انکوائری کمیشن کی بنیاد پر کسی کو جیل نہیں بھیجا جا سکتا۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اعلیٰ سطح پر ایک پولیس رپورٹ آئی ہے انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے بعد ملزم کو نامزد کیا جاتا ہے، جب اس کی بنیاد پر کارروائی شروع ہوگی تو ملزم بنیں گے ان کو ریکارڈ شدہ بیانات کی نقول دی جائیں گی اور ان کے وکیل کو جرح کا موقع دیا جائے گا۔ تمام گواہوں کو دوبارہ بلایا جائے گا ان کے بیانات دوبارہ ہوں گے، ان پر جرح کی جائے گی۔ گویا یہ ایک قسم کی اعلیٰ اختیاراتی پولیس انویسٹی گیشن ہے۔ کوئی قتل ہو جاتا ہے تو پولیس اس کی تفتیش کرتی ہے اور رپورٹ دیتی ہے تو اس کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اگر نظر انداز کیا جائے تو عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں، ہائیکورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کر سکتے ہیں اسی طرح اس رپورٹ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔