تاریخ کا پہیہ امریکہ کیخلاف چلنے لگا

Published On 22 Dec 2017 09:35 AM 

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مقبوضہ بیت المقدس کو امریکہ کی جانب سے اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے خلاف قرارداد کے نتائج غیر متوقع اور حیران کن نہیں ہے۔

لاہور: (تجزیہ: شمشاد احمد ) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مقبوضہ بیت المقدس کو امریکہ کی جانب سے اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے خلاف قرارداد کے نتائج غیر متوقع اور حیران کن نہیں کیونکہ امریکہ پہلے بھی اس معاملے پر تنہائی کا شکار ہے ۔مقبوضہ بیت المقدس کے معاملے پر دنیا نے اپنی بھڑاس امریکہ کے خلاف نکال دی ۔سکیورٹی کونسل میں امریکی تنہائی پہلے ہی واضح ہو گئی تھی کہ جو اقوام متحدہ کا ایک بہت منتخب ادارہ ہے اس میں امریکہ کے خلاف ایک طرح سے متفقہ قرارداد منظور ہوچکی تھی جنرل اسمبلی جمہوری لحاظ سے دنیا کی نمائندگی کرتی ہے عملی طور پر قرار داد کا ردعمل یہ ہوسکتاہے کہ ٹرمپ چھوٹے ممالک کو دبانے کی کوشش کرے ، امداد کم کردے ، مگر اس سے فرق نہیں پڑے گا ۔ ممالک نے اپنے اصولی موقف پر ڈٹ کر ووٹ دیا ۔اتنی بڑی تعداد میں ممالک کا امریکہ کے خلاف فیصلہ صادر کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے اور انہوں نے ان دھمکیوں کے باوجودبڑی جرات دکھائی کہ جس میں امریکہ نے کہا تھاکہ ہم ایسے لوگوں کو سزاد ینگے تو اس سے ٹرمپ اور امریکہ کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ طاقت سے معاملات چلانے کا سلسلہ ہمیشہ نہیں چل سکتا۔

طاقت کو ہمیشہ غلط سمجھا گیا، گزشتہ دو تین دہائیوں میں طاقت بارے یہ دعوی کیا گیا کہ یہ درست ہے ،مگر اب اس کے الٹ ہو رہا ہے۔ یہ تبدیلی کی شروعات ہے اور آئندہ بھی وقت بدلتا رہے گا ،بعض دفعہ تبدیلی کے عمل کو مکمل ہونے میں سو سال بھی لگ سکتے ہیں اور کبھی وہ 20 سال میں مکمل ہو جاتاہے ،اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ عالمی رحجانات اپنے آپ کو کس طرح ڈھالتے ہیں ۔ویسے بھی دنیا میں تاریخ گواہ ہے کہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے، اب دنیا میں طاقت کے توازن میں تبدیلی کا وقت آگیا ہے، اشارے تو پہلے سے ہیں کہ چین اور روس ابھر رہے ہیں۔ سرد جنگ کے بعد امریکہ سپر پاور بن کر ابھرا تھا، اب طاقت کا تواز ن پیدا ہونا شروع ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دنیا کا یہ فیصلہ اس طرف پہلا پتھر ہے کیونکہ اب تک یہ تھا کہ گزشتہ دو ہائیوں کے دوران بڑے فیصلے واشنگٹن میں ہوتے ہیں، اقوام متحدہ کو خاص طور پر عراق جنگ کے بعد مکمل طور پر غیر متعلق بنا دیا گیا ،اب یہ امریکہ کے خلاف اتنا بڑا ووٹ ہے ، جس سے ظاہر ہوا ہے کہ فیصلے اب واشنگٹن میں نہیں بلکہ نیو یارک میں ہوا کریں گے لیکن فیصلوں کے بعد ابھی اس میں بھی وقت لگے گا۔

جس دن امریکہ کی مرضی کے خلاف فیصلے سلامتی کونسل میں ہونا شروع ہوگئے ، اس دن واضح تبدیلی آئے گی ،لیکن ابھی اس کا امکان نہیں ۔ اب دنیا میں دوسرے مسئلے بھی ہیں جس میں کشمیر ہے ،جہاں پر امریکہ نے اپنی طاقت کے بل پر ضد ی رویہ اختیار کیا ہوا ہے ،اس میں بھی تبدیلی لانے کی کوشش ہونی چاہیے ۔اسلامی دنیا کا چیلنج اب شروع ہواہے ۔ او آئی سی میں شامل57اسلامی ممالک کے لئے چیلنج ہے کہ وہ کس طرح بڑے مسائل پر عملی اقدامات کرتے ہیں ، اس حوالے سے ایک متفقہ موقف اور پالیسیاں اپناتے ہیں ۔ پہلے کہا تھاکہ ہمیں سیاسی،معاشی اور فوجی بنیادوں پر متحد ہونا ہے اور یہی حل ہے ۔مسلم دنیا کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے ۔ اختلافات سے اوپر ہو کر متحدہوں ۔سعودی اتحاد بھی ابھی ایسے ہی ہے ،ان کو ایک منظم تنظیم بنانے کی ضرورت ہے جیسے مغربی ممالک نے نیٹو بنایا ہوا ہے تاکہ ہم اقوام متحدہ اور عالمی سطح پر جو فیصلہ سازی ہوتی ہے اس میں اپنا کردار ادا کرسکیں اور اقتصادی سطح پر مسلم ممالک کی دولت کا فائدہ مسلم ممالک کو ہی پہنچنا چاہیے ،دوسری دنیا کو نہیں۔مسلم دنیا توازن قائم کرے اور اپنے مقبوضہ بیت المقدس اور کشمیر جیسے مفادات اور مشرق وسطیٰ میں جو جنگیں ہماری سرزمینوں پر لڑی جارہی ہیں ،یہ سارا ماحول بدل سکیں ۔ہم دنیا میں توازن کا فیکٹر بنیں کیونکہ دنیا بہت عدم توازن کا شکار ہے ۔