کوئٹہ: (دنیا نیوز) شام 6 بجے کے قریب بلوچستان اسمبلی کے نزدیک زوردار دھماکہ ہوا۔ دھماکہ زرغون روڈ پر اسمبلی کا اجلاس ختم ہونے کے فوراً بعد ہوا۔ 5 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 7 افراد شہید جبکہ 8 اہلکاروں سمیت 16 افراد زخمی ہو گئے۔
وی آئی پی موومنٹ کے باعث متعدد سڑکیں اسمبلی کے اجلاس سے قبل ہی بند کر دی گئی تھیں اور 6 ہزار سکیورٹی اہلکار شہر میں سکیورٹی امور سرانجام دے رہے تھے۔ ارکان اسمبلی سے نکل رہے تھے کہ اسی دوران زوردار دھماکہ ہو گیا۔ دھماکہ جی پی او چوک میں ہوا اور دہشتگردوں کی جانب سے بلوچستان کانسٹیبلری کے ایک ٹرک کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ دھماکے کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیر لیا۔ میڈیا کو آگے جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سکیورٹی فورسز کے ٹرک میں 25 کے قریب اہلکار سوار تھے جو اسمبلی کی سکیورٹی پر تعینات تھے۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد اہلکار ٹرک میں راستے کی سکیورٹی پر مامور تھے کہ دہشتگردی کا نشانہ بن گئے۔ زخمی اہلکاروں کو فوری طور پر سول ہسپتال منتقل کر دیا گیا اور شہر بھر کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ ریسکیو ذرائع کے مطابق، زخمیوں کو سول ہسپتال کوئٹہ منتل کیا گیا ہے جن میں سے 12 شدید زخمیوں کو ٹراما سینٹر منتقل کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ جی پی او چوک پر ہونے والے دھماکے سے کچھ ہی دیر پہلے سکیورٹی فورسز کی جانب سے اس راستے کو عام شہریوں کیلئے کھولا گیا تھا کیونکہ اس سے قبل یہاں سے وی آئی پی موومنٹ جاری تھی۔ تاہم، اسمبلی کا اجلاس ختم ہونے کے بعد ابھی اپوزیشن لیڈر کے چیمبر میں سردار اختر مینگل سمیت متعدد ارکان اسمبلی پریس کانفرنس کیلئے جمع ہو رہے تھے اور میڈیا والے اسمبلی کے اندر جانے کی اجازت نہ ہونے کے باعث باہر ہی سے بیپر دینے میں اور اجلاس کی کوریج کرنے میں مصروف تھے کہ اسمبلی سے پانچ منٹ کے پیدل سفر کے فاصلے پر واقع جی پی او چوک پر زوردار دھماکہ ہو گیا۔
مریم نواز کی مذمت
اپنے ٹویٹر پیغام میں مریم نواز نے دھماکے کی شدید مذمت کی ہے۔
— Maryam Nawaz Sharif (@MaryamNSharif) January 9, 2018
سکیورٹی اہلکاروں کو جائے حادثہ سے بعض بکھرے ہوئے انسانی اعضاء ملے ہیں جن کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ یہ ایک خودکش دھماکہ تھا۔ خودکش بمبار نے خود کو سکیورٹی اہلکاروں کے ٹرک کے قریب پہنچ کر اڑا لیا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ جب صبح سے 6 ہزار سکیورٹی اہلکار ریڈ زون میں تعینات تھے اور اسمبلی اور اس کے اردگرد کے علاقے کو مکمل طور پر کوارڈن آف کیا گیا تھا۔ مہمانوں کے پاسز منسوخ کر دیئے گئے تھے۔ میڈیا تک کو اسمبلی میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ تمام ٹریفک کو بھی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہی ڈائیورٹ کیا جا رہا تھا۔ پھر آخر خودکش بمبار ریڈ زون میں کیسے پہنچا؟
دھماکے سے کئی کاریں، ایک بس اور رکشہ بھی تباہ ہو گئے۔ جی پی او سمیت قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ پولیس اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے علاقے میں سرچ آپریشن کیا گیا۔ بم ڈسپوزل سکواڈ نے بھی جائے حادثہ اور اس کے اردگرد کے علاقے میں تفصیلی سرچنگ کی۔
آئی جی کی میڈیا سے گفتگو
آئی جی بلوچستان نے جائے حادثہ کا دورہ کیا اور پولیس اہلکاروں سے ملاقات کی۔ موقع پر موجود افسران نے انہیں حملے سے متعلق بریف بھی کیا۔ اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے آئی جی پولیس معظم جاہ انصاری نے بتایا کہ دھماکہ خودکش تھا اور دھماکے میں بال بیئرنگ بھی استعمال کئے گئے۔ آئی جی بلوچستان پولیس کے مطابق، دھماکے میں سکیورٹی فورسز کے 5 اہلکار شہید اور 2 شہری جاں بحق ہوئے جبکہ 16 افراد زخمی ہوئے جن میں 8 سکیورٹی اہلکار اور 8 شہری شامل ہیں۔ آئی جی پولیس کے مطابق، سکیورٹی کے بہتر انتظامات کئے گئے تھے، اجلاس کے دوران کوئی دھماکہ نہیں ہوا، خودکش حملہ آور اسمبلی جانا چاہتا تھا لیکن سکیورٹی انتظامات سخت ہونے کے باعث اس نے سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا۔
وزیر اعظم کی شدید مذمت
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے دھماکے کی شدید مذمت کی گئی ہے اور انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ زخمی اہلکاروں کو بہترین طبی امداد فراہم کی جائے۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ مٹھی بھر دہشتگرد قوم کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتے۔
سابق صدر آصف علی زرداری، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو، گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی، سابق وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی دھماکے کی شدید مذمت کی ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ آخری دہشتگرد کے خاتمے تک جنگ جاری رکھیں گے۔ تمام رہنماؤں نے شہداء کے خاندانوں سے اظہار ہمدردی کیا ہے اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کیلئے دعا کی ہے۔
— Govt Of The Punjab (@GovtOfPunjab) January 9, 2018
— Govt Of The Punjab (@GovtOfPunjab) January 9, 2018
— Govt Of The Punjab (@GovtOfPunjab) January 9, 2018
(جاری ہے)