خودکش دھماکے میں شہید ہونے والے 4 اہلکاروں کی نمازجنازہ ادا کر دی گئی۔ نمازجنازہ میں آئی جی پولیس بلوچستان معظم جاء انصاری کے علاوہ عسکری و سول آفیسران نے شرکت کی۔
کوئٹہ: (دنیا نیوز) جی پی او چوک خود کش دھماکے کے بعد دوسرے روز بھی کوئٹہ کی فضا سوگوار ہے۔ خودکش دھماکے میں شہید ہونے والے 4 اہلکاروں کی نمازجنازہ ادا کر دی گئی۔ نمازجنازہ میں آئی جی پولیس بلوچستان معظم جاء انصاری کے علاوہ عسکری و سول آفیسران نے شرکت کی۔ نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد میتیں ان کےآبائی علاقوں کو روانہ کر دی گئیں۔
جی پی او چوک خود کش دھماکے کا مقدمہ سول لائن پولیس تھانے میں درج کر لیا گیا۔ پولیس کے مطابق مقدمہ ایک پولیس اہلکار کی میت میں درج کیا گیا۔ مقدمے میں قتل، اقدام قتل، انسدادی گردی ایکٹ اور دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیں:بلوچستان اسمبلی کے قریب دھماکہ
گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی کے قریب زرغون روڈ پر پولیس اہلکاروں کو لیجانے والے ٹرک اور لوکل بس کے قریب خودکش دھماکے میں 4 پولیس اہلکاروں سمیت 6 افراد جاں بحق اور 27 زخمی ہوئے۔ آئی جی پولیس کے مطابق خودکش حملہ آور اسمبلی میں داخل ہونا چاہتا تھا لیکن حفاظتی انتظامات سخت ہونے کے باعث اس نے سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا۔ 4 اہلکار زین العابدین، خیر الدین، منیر احمد، احسان ﷲ، شہری کلیم اﷲ اور ایک نامعلوم شخص موقع پر ہی شہید ہوگئے، زخمیوں کو فوری طورپر سول ہسپتال کوئٹہ، بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال اور سی ایم ایچ ہسپتال منتقل کیاگیا۔ دھماکہ کے نتیجے میں لوکل بس، تین کاریں، ایک رکشہ اور دو موٹرسائیکلیں بھی تباہ ہوئیں۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس کے نتیجے میں نہ صرف قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے بلکہ کئی کلومیٹر دور تک اس کی آواز بھی سنی گئی۔ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے موقع پر پہنچ کر بلوچستان اسمبلی اور آس پاس کے علاقوں میں پوزیشن سنبھال لی اور جائے وقوعہ کو سیل کردیا گیا۔ زخمیوں اور جاں بحق افراد کو ایمبولینسز کے ذریعے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔
بم ڈسپوزل سکواڈ کے مطابق دھماکہ میں 15 سے 20 کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیاگیا۔ محکمہ سول ڈیفنس کے بم ڈسپوزل سکواڈ کے مطابق ابتدائی اور غیر حتمی رپورٹ کے مطابق جی پی او چوک کے قریب زرغون روڈ پر تعینات بلوچستان کانسٹیبلری کی پلاٹون پر خودکش حملہ کیا گیا ،حملہ آور پیدال تھا جس کی عمر 15 سے 20 سال کے لگ بھگ تھی، خودکش حملہ آور کے جسم کی باقیات اور دیگر شواہد کا تجزیہ کیا جا رہا ہے اور مزید تحقیقات متعلقہ پولیس اور اعلیٰ حکام کر رہے ہیں۔ وی آئی پی موومنٹ کے باعث متعدد سڑکیں اسمبلی کے اجلاس سے قبل ہی بند کر دی گئی تھیں اور 6 ہزار سکیورٹی اہلکار شہر میں سکیورٹی امور سرانجام دے رہے تھے۔