قصور: (دنیا نیوز) شہر میں حالات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔ ڈنڈا بردار مظاہرین بدستور سڑکوں پر ہیں۔ مظاہرین نے ایم پی اے نعیم صفدر کے ڈیرے پر حملہ کیا اور وہاں کھڑی 2 گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ مظاہرین کی جانب سے ہسپتال پر بھی دھاوا بولا گیا اور عملے کو باہر نکال کر تالے لگا دیئے گئے۔ گزشتہ روز پولیس فائرنگ سے جاں بحق 2 افراد کی نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد انہیں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔
زینب کے والد کا بیان
زینب کے والد نے جے آئی ٹی سربراہ پر اعتراض کر دیا ہے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے تفتیشی ٹیم کے سربراہ کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے، کہتے ہیں ہمارا احتجاج پُرامن ہے۔ انہوں نے املاک کو نقصان نہ پہنچانے کی اپیل بھی کی ہے۔
احمد رضا قصوری کا دعویٰ
ممتاز ماہرِ قانون احمد رضا قصوری نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار سے ملاقات کی ہے جس میں انہوں نے انہیں بتایا ہے کہ زینب کے قتل میں ملوث سفاک ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سینئر قانون دان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی چیف جسٹس سے ملاقات ان کے چیمبر میں ہوئی جس میں زینب قتل کے واقعہ پر تبادلہ خیال کیا گیا اور انہوں نے از خود نوٹس لینے پر چیف جسٹس کا شکریہ ادا کیا۔ احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے خوشخبری سنائی کہ ملزم گرفتار ہو گیا ہے جو زینب کا قریبی رشتہ دار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ننھی زینب کے لرزہ خیز قتل کے بعد قصور میں کشیدگی برقرار
آر پی او شیخوپورہ کی تردید
آر پی او شیخوپورہ نے احمد رضا قصوری کے بیان کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ زینب کا قاتل ابھی تک گرفتار نہیں ہوا، تفتیش جاری ہے، جب پیشرفت ہو گی تو سب کو اعتماد میں لیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے کیسز میں بھی افواہوں کی وجہ سے خرابی پیدا ہوئی تھی۔
وزیر قانون پنجاب کی تردید
وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے بھی احمد رضا قصوری کے دعوے کی تردید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حیرت ہے کہ احمد رضا قصوری چیف جسٹس کا نام استعمال کر رہے ہیں، احمد رضا قصوری کی باتوں پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے۔ وزیر قانون نے مزید کہا کہ فوٹیج کی مدد سے 8 سے 10 لوگ پکڑے ہیں، گرفتار افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کر رہے ہیں، ملزم جلد سامنے آ جائے گا۔
عمران خان کی پریس کانفرنس
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قصور واقعے سے عوام کو بہت دکھ ہوا، مہذب ممالک میں ایسے واقعات کا تدارک کیا جاتا ہے، زینب کے واقعے پر سانحہ اے پی ایس جیسا دکھ ہوا، متاثرین نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے انصاف مانگا ہے، لوگوں کا پنجاب حکومت اور پولیس سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی ملک میں خطرناک واقعات ہوئے ہیں، عوام نے احتجاج کیا تو پولیس نے میڈیا کے سامنے گولیاں چلائیں، پولیس میں سفارش اور رشوت لے کر بھرتیاں کی گئیں، پولیس قانون کی بجائے حکمرانوں کے حکم پر کام کر رہی ہے، ساری قوم نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس کو گولیاں مارتے دیکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ پہلے ہی تکلیف میں تھے اور انہیں سیدھی گولیاں ماری گئیں، شریف برادران نے 19 سال پنجاب میں حکومت کی لیکن تمام تقرریاں رائیونڈ سے ہوتی ہیں۔
آئی جی نے ابتدائی تفتیشی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی
آئی جی پنجاب نے سانحہ قصور کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجرم کو پکڑنے کیلئے تمام وسائل استعمال کر رہے ہیں، 227 مشتبہ افراد سے تفتیش کی گئی ہے، آخری عینی شاہد کی مدد سے گھر گھر تلاشی جاری ہے، 67 مشتبہ افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ لیبارٹری بھجوا دیئے گئے ہیں، ملزمان تک پہنچنے کیلئے موبائل ڈیٹا سے مدد بھی لی جا رہی ہے، علاقے کا جیو فینسنگ ڈیٹا حاصل کر لیا گیا ہے اور تحقیقات کی نگرانی ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ واقعہ کی تحقیقات کیلئے ایڈیشنل آئی جی پولیس کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ننھی زینب کی دوبارہ نماز جنازہ ادا، سپرد خاک کر دیا گیا
شہر میں کشیدگی برقرار
دوسری جانب، قصور میں حالات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔ ڈنڈا بردار مظاہرین آج بھی سڑکوں پر ہیں۔ ایم پی اے نعیم صفدر کے ڈیرے پر حملہ کیا گیا اور 2 گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔ مظاہرین نے ہسپتال پر بھی دھاوا بولا اور عملے کو باہر نکال کر تالے لگا دیئے۔ ادھر، گزشتہ روز پولیس فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے 2 افراد کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی ہے۔
دریں اثناء، آج دوپہر، سٹیل چوک کے قریب مظاہرین نے فیروزپور روڈ کو ٹریفک کیلئے بند کر دیا جس کے بعد پولیس کی بھاری نفری فیروزپور روڈ پر پہنچ گئی اور مظاہرین کی گرفتاریاں شروع کر دی گئیں۔ پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی گئی جس کے بعد مظاہرین منتشر ہونے پر مجبور ہو گئے۔
ادھر، شام 6 بجے کے قریب، شہباز روڈ پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ عروج پر پہنچ گیا جس کے بعد پولیس نے مظاہرین سے ٹمنٹنے کے لئے واٹر کینن منگوا لیا اور انہیں دھو ڈالا جس کے بعد مظاہرین کچھ دیر کیلئے منتشر ہوئے مگر پھر جلد ہی دوبارہ جمع ہونا شروع ہو گئے۔
شام 7 بجے کے قریب، زینب کیلئے انصاف کا تقاضا کرنے والے مظاہرین نے لیگی ایم این اے شیخ وسیم اختر کے ڈیرے پر دھاوا بولا اور فرنیچر کو آگ لگا دی جس کے بعد پولیس موقع پر پہنچی اور یہاں بھی واٹر کینن کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو دھو ڈالا گیا۔
زینب کے اغواء اور قتل کے بعد ننھی پری کے والدین پل پل مرنے لگے ہیں۔ ہر شخص کی زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ درندہ انجام کو کب پہنچے گا؟
ملزم کی نشاندہی پر انعام کا اعلان
دوسری جانب، حکومت کی جانب سے ملزم کی نشاندہی پر 1 کروڑ روپے کے انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔ پولیس فائرنگ سے جاں بحق افراد کے لواحقین کیلئے 30، 30 لاکھ روپے کی امداد کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
کراچی میں احتجاج
زینب کو انصاف دو ، قوم کی بیٹی کیلئے سب یک آواز ہو گئے۔ ملک بھر میں جگہ جگہ زینب کے حق میں احتجاج کیا گیا۔ کراچی میں ننھے بچے سڑکوں پر نکل آئے اور زینب کو انصاف دلانے کا مطالبہ کیا۔ کراچی پریس کلب کے سامنے سول سوسائٹی نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ احتجاج میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور فنکار بھی موجود تھے۔ میئر کراچی وسیم اختر بھی سول سوسائٹی کے احتجاج میں شامل تھے۔
قومی اسمبلی میں تحریکِ التواء، سندھ اسمبلی میں مذمتی قرارداد
زینب ہم شرمندہ ہیں ، ننھی بچی کے شرمناک قتل نے پوری قوم کے سر شرم سے جھکا دیئے۔ سانحہ قصور کی گونج ایوانوں میں بھی پہنچ گئی۔ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں تحریک التواء جمع کرا دی۔ سانحے کے خلاف سندھ اسمبلی میں مذمتی قرارداد بھی پیش کی گئی ہے۔
سینیٹر سراج الحق کا احتجاجی مظاہرے سے خطاب
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے سانحہ قصور کے خلاف احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے سانحے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ صاحب! ننھی جان کے قتل کا جواب دیں، زینب 5 روز سے لاپتہ تھی، حکومت کا ضمیر کیوں نہیں جاگا؟ ان کا کہنا تھا کہ قصور کو ظلم کا مرکز بنا دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس کی تردید
احمد رضا قصوری کی جانب سے کچھ دیر قبل چیف جسٹس سے منسوب ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں چیف جسٹس نے یہ خوشخبری سنائی ہے کہ زینب کا قاتل گرفتار ہو گیا ہے۔ تاہم، اب چیف جسٹس آف پاکستان نے خود سے منسوب احمد رضا قصوری کے بیان کی تردید کر دی ہے۔
اس سے قبل، ایک مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے یہ بھی کہا تھا کہ قصور کا واقعہ پاکستان کیلئے باعث شرمندگی ہے، زینب ہماری بھی بیٹی تھی، وکلاء احتجاج ضرور کریں لیکن ہڑتال جائز نہیں۔
فنکار بھی سراپا احتجاج
شہزاد رائے اور ماہرہ خان سمیت فنکاروں کی بڑی تعداد بھی زینب کے ساتھ پیش آنے والے انسانیت سوز واقعے کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ شہزاد رائے نے دنیا نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ زینب کا قتل انسانیت کی تذلیل ہے، واقعہ میں ملوث ملزم کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔
طاہر القادری کا 17 جنوری کو مال روڈ پر احتجاج کا اعلان
طاہر القادری نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب احتجاج میں سانحہ قصور بھی شامل ہو گیا ہے، فیصل آباد اور سرگودھا میں بھی شرمناک واقعات ہوئے ہیں، حکمران بے حس اور شہریوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں، چیف جسٹس سے مطالبہ کرتا ہوں کہ جو ایف آئی آر درج ہوئی، اس میں کسی پولیس اہلکار کو نامزد نہیں کیا گیا، اس کا بھی جائزہ لیں۔ انہوں نے کہا کہ حکمران چاہتے ہیں کہ میڈیا آواز بلند نہ کرے، شہباز شریف نے کل شہید ہونے والے ایک شخص کی قیمت 30 لاکھ لگائی ہے، پہلے قتل کرتے ہیں پھر خون کی قیمت لگاتے ہیں۔ انہوں نے عدالت عالیہ سے مطالبہ کیا کہ شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور آئی جی کو طلب کیا جائے، رانا ثناء اللہ، آئی جی پنجاب اور سیکریٹری داخلہ کو فوری طور پر معطل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ جیسی بڑی گردنوں پر ہاتھ ڈالا جائے، تب ہی مجرم کا سراغ ملے گا۔
بعد ازاں، سٹیئرنگ کمیٹی کی میٹنگ کے بعد طاہر القادری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء اور سانحہ قصور کے شہداء کو انصاف دلانے کیلئے 17 جنوری کو مال روڈ پر احتجاج کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جس کی آئین اجازت نہ دے، احتجاج میں تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت شریک ہو گی، کارکن تمام تیاری کے ساتھ مال روڈ پر آئیں، انصاف کے حصول کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، 16 جنوری کو سٹیئرنگ کمیٹی کا دوبارہ اجلاس ہو گا، تمام فیصلے کر کے 17 جنوری کے احتجاج میں جائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انسانی جانوں کی قیمت پیسوں سے کہیں زیادہ ہے، یہ نہیں سوچ رہے کہ احتجاج پر کتنے پیسے لگیں گے اور کونسی جماعت کتنا حصہ ملائے گی۔
اس سے قبل، عوامی تحریک کی سٹیئرنگ کمیٹی کی تشکیل کردہ ایکشن کمیٹی کا پہلا اجلاس منہاج القرآن سیکریٹریٹ لاہور میں ہوا۔ ایکشن کمیٹی میں 7 جماعتوں کے 7 اراکین شامل ہیں۔ اجلاس میں پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی، ق لیگ، عوامی مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کے نمائندے شریک ہوئے جن میں قمر الزمان کائرہ، کامل علی آغا، شیخ رشید، خرم نواز گنڈا پور اور دیگر افراد شامل تھے۔ اجلاس کی صدارت سربراہ عوامی تحریک طاہر القادری نے کی۔ ایکشن کمیٹی 17 جنوری سے ہونے والے ملک گیر احتجاج کا انتظامی جائزہ لے رہی ہے۔
قمر الزمان کائرہ کی میڈیا سے بات چیت
ڈاکٹر طاہر القادری کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے قمر الزمان کائرہ نے کہا کہ سانحہ قصور پر ساری قوم پریشان ہے، قصور میں یہ پہلا واقعہ نہیں تھا، اب تک ایسے بارہ واقعات ہو چکے ہیں، پہلے کیس میں ملزم کو سزا ہوتی تو آج اتنے واقعات نہ ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ مظاہرین کو سیدھی گولیاں ماری گئیں، جس کے خلاف تمام جماعتیں سراپا احتجاج ہیں۔
قصور میں رینجرز تعینات
ترجمان پنجاب حکومت کے مطابق، قصور میں رینجرز تعنیات کر دی گئی ہے۔ شہر میں رینجرز کے دستوں نے گشت شروع کر دیا ہے۔ شہر میں امن و امان قائم کرنے کے لئے دستے تمام اہم عمارتوں پر موجود رہیں گے۔ رینجرز کا گشت شہر میں امن و امان قائم کرنے کے لئے ہے۔ امن و امان کی صورت حال بہتر ہوتے ہی رینجرز واپس چلے جائیں گے۔
پولیس فائرنگ سے ہلاک افراد کی پوسٹمارٹم رپورٹ
قصور میں گزشتہ روز پولیس فائرنگ سے جاں بحق افراد کی پوسٹمارٹم رپورٹ آ گئی ہے۔ دونوں افراد کو 2، 2 گولیاں لگیں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق، شعیب اسلم کے سینے اور کندھے میں گولی لگی جبکہ محمد علی کے جسم پر بھی گولیوں کے 2 نشان ہیں۔
پولیس فائرنگ سے ہلاک افراد سپردِ خاک
دوسری جانب، پولیس فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے دونوں افراد کو سپردِ خاک کر دیا گیا ہے۔ شہداء کی تدفین دائم الحضوری قبرستان میں کی گئی۔ نمازِ جنازہ گورنمنٹ ڈگری کالج میں ادا کی گئی۔
لاہور سراپا احتجاج
ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور سے ملحق ضلع قصور میں 7 سالہ پری زینب کے قتل نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لاہور میں بھی شہری سانحے پر سکتے کی سی حالت میں ہیں۔ اِس قتل کے خلاف شہریوں کی طرف سے مسلسل غم و غصے کا اظہار کیا جانے کے ساتھ ساتھ ملزم کی جلد گرفتاری کا مطالبہ بھی شد و مد سے سامنے آ رہا ہے۔
واقعے کے خلاف شہر میں متعدد ریلیاں بھی نکالی گئیں۔ استنبول چوک میں طلبہ و طالبات نے واقعے کے خلاف بڑی ریلی نکالی اور چیئرنگ کراس کی طرف مارچ کیا۔ کلمہ چوک پر بھی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس کے باعث میٹرو بس کے روٹ کو وقتی طور پر محدود کرنا پڑا۔ پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات نے بھی مظاہرہ کیا جس کے بعد زینب کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔
اہل لاہور کی محفلوں میں بھی زینب کے قتل پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔