اکثریت ملنے پر وزیراعظم کا فیصلہ ہوگا: وزیراعظم شاہد خاقان عباسی

Published On 30 Jan 2018 11:48 AM 

اسلام آباد: ( روزنامہ دنیا ) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے مسلم لیگ ن کی مرکزی مجلس عاملہ میں وزیراعظم کے امیدوار کافیصلہ اکثریت ملنے پر ہو گا ، شہبازشریف سینئررکن ہیں،وزارت عظمیٰ کیلئے ان کانام زیرغورآئیگا،عوام نے نوازشریف کیخلاف الزامات مسترد کر دیئے ،نیب عدالت نہیں عوام کا فیصلہ چلے گا، کیسوں میں اتنے شواہد نہیں کہ سزا ہوسکے ،عوام ایسے فیصلے تسلیم نہیں کرتے۔

"دنیا کامران خان کیساتھ" میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا انتخابات بہت نزدیک ہیں جس کا سب کو انتظار کرنا چاہیے ،قبل از وقت انتخابات کا کوئی امکان نہیں کیونکہ الیکشن کمیشن نے نئی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیوں پر بھی ابھی کام کرنا ہے ، عوام نے ہمیں 5 سال کیلئے منتخب کیا ،ابھی 4 ماہ رہتے ہیں، ہر ہفتے 2 بڑے منصوبوں کا افتتاح کر رہے ہیں اس کے باوجود وقت بہت کم ہے ، مسلم لیگ (ن) اپنی 5 سالہ کارکردگی عوام کے سامنے لے کر جائے گی اور عوام ہی کو فیصلے کا موقع دے گی کیونکہ یہی بہترین اور جمہوری طریقہ ہے ،میں ان منصوبوں کا افتتاح کر رہا ہوں جو میری پارٹی نے گزشتہ 4 سال میں شروع کئے تھے اس لئے یہ میری کارکردگی نہیں بلکہ میری جماعت کی کارکردگی اور سابق وزیراعظم نواز شریف کا وژن ہے جسے ہم مکمل کر رہے ہیں،اپوزیشن ہر بات کرتی ہے لیکن ہماری کارکردگی پر آج تک اپوزیشن نے بھی کوئی بات نہیں کی نہ ہی کسی نے یہ کہا کہ حکومت نے کوئی کام نہیں کیا، حکومتیں تو سب جماعتوں کے پاس ہیں ،پیپلز پارٹی اورتحریک انصاف کے پاس بھی حکومت ہے ، اب تو مسلم لیگ ق بھی ایک حکومت کا دعویٰ کرتی ہے لیکن آج تک کسی نے بھی ہماری کارکردگی پر کوئی تنقید نہیں کی جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حکومت بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا پہلے جب ہماری جماعت انتخابات میں جاتی تھی تو یہ بات طے ہوتی تھی کہ اگر ہماری جماعت اکثریت حاصل کرتی ہے تو وزیراعظم کیلئے امیدوار نواز شریف ہی ہونگے لیکن اب یہ کیفیت نہیں ہے، اگر اب ہماری جماعت آئندہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرتی ہے اور اس بات کی ہمیں قوی امید بھی ہے تو پھر یہ فیصلہ بننے والا پارلیمانی گروپ، سی ای سی یا پھر سی ڈبلیو سی کرے گی، اس سے قبل کوئی فیصلہ قبل از وقت ہوگا لیکن یہ بات ضرور کہوں گا کہ نواز شریف کا حکومت چلانے کا وسیع تجربہ تھا اس لئے سب لوگ میکنزم کے بجائے ڈلیوری کو دیکھیں کیونکہ موجودہ حکومت نے ساڑھے چار سال میں ڈلیور کیا ہے جو نظر بھی آ رہا ہے ،میری رائے کے مطابق ایک مختصر فہرست کے علاوہ ’’ویزا آن آرائیول‘‘ہونا چاہیے، چودھری نثار نے بھی اسمبلی میں اپنی رائے دی اور اس پالیسی سے اختلاف رائے ظاہر کیا، اسمبلی میں اختلافات کا اظہار پارلیمانی روایت نہیں، کوئی بھی جماعت جمہوریت مخالف نہیں، پیپلز پارٹی نے جمہوریت کیلئے ساتھ دیا، کچھ لوگوں نے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی جنہیں قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔

شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ عدلیہ اور انتظامیہ کو باہمی معاملات سمجھ کر چلنے کی ضرورت ہے تاکہ معاملات کا خوش اسلوبی سے حل یقینی بنایا جا سکے ،عدلیہ’’جوڈیشل ایکٹوازم‘‘ کا دائرہ کار بھی بڑھا رہی ہے ،ججوں کی سلیکشن پر بھی پارلیمانی نگرانی ہونی چاہیے اور ججوں کو انتخاب سے قبل پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا چاہیے ، ملک کو درپیش مسائل بالخصوص افغانستان کے معاملے پر فوجی قیادت سے باضابطہ طور پر رابطے ضروری تھے ، نواز شریف پرانے سیاسی لیڈر ہیں ، ان کا اور پارٹی کا نقطہ نظر سب جانتے تھے اس لئے اس قسم کے اجلاسوں کی ضرورت نہیں تھی ، غیر رسمی طور پر ہی کام چل جاتا تھا،ہم نے سمجھا کہ فوجی قیادت سے رسمی رابطہ ضروری ہے تاکہ سول اور ملٹری قیادت ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھ سکے ،اداروں کے درمیان باہمی تعلقات بہتر ہوسکیں اور ان مشترکہ اجلاسوں کے مثبت نتائج نکلے ہیں ، 2018 انتخابات کا سال ہے جس میں سیاسی جماعتیں اپنی کارکردگی عوام کے سامنے رکھتی ہیں، ہم بھی اپنی کارکردگی عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں، مجھے بھی میری جماعت جہاں کہے گی عوامی جلسے میں جاؤں گا،موجودہ حکومت اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کیلئے کوشاں ہے لیکن موجودہ انتخابات میں اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا مشکل لگتا ہے ، ہمیں قوی امید ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کی اکثریت بھی ووٹ مسلم لیگ (ن) ہی کو دے گی کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت عوامی خدمت کی سیاست پر یقین رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر اپنے بھرپور اعتماد کاا ظہار کرتے ہیں،ہم پرعزم ہیں کہ آئندہ خیبرپختونخوا میں بھی مسلم لیگ (ن) ہی کی حکومت ہو گی جبکہ کراچی اور اندرون سندھ میں بھی مسلم لیگ (ن) کو پذیرائی ملے گی،بلوچستان میں ہماری پارلیمانی پارٹی میں بغاوت ہوئی ، انہوں نے بغیر کسی مشاورت کے فیصلہ کیا ، اب مستقبل میں دیکھ لیں گے کہ کیا لوگ اس قسم کا شب خون مارنے والوں کو پسند کرتے ہیں یا جمہوریت کا ساتھ دیں گے ،یہ بھی جمہوری عمل تھا اس پر دو رائے نہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ کراچی کے 25 ارب روپے کے پیکیج کے بعد حیدرآباد کو بھی پیکیج دیں گے ،ٹیکس ایمنسٹی سکیم لانے کیلئے گزشتہ 5 ماہ سے کام کر رہے ہیں کیونکہ پورے ملک کا ٹیکس کا بوجھ صرف 0.8 فیصد لوگوں نے اٹھایا ہوا ہے ، حالانکہ جنہیں ٹیکس دینا چاہیے وہ نہیں دیتے اور جن پر ٹیکس کم ہونا چاہیے وہ ٹیکس دیتے ہیں، انکم ٹیکس کے ریٹ کو بھی کم کریں گے جبکہ کم آمدنی والوں پر بھی ٹیکس کم کیا جائے گا، ایسا نظام بنائیں گے کہ لوگ پراپرٹی پر زیادہ پیسہ نہ لگائیں، ایمنسٹی سکیم اگلے 2 ہفتوں میں قانون کا حصہ ہو گی اور اس سے حکومت کا مقصد پیسہ بنانا نہیں بلکہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہے ،شناختی کارڈ سے آمدنی اور اخراجات کا پروفائل بنایا جائے گا، اسمبلی میں سب سے زیادہ ایشو ایل این جی کا اٹھایا گیا حالانکہ تمام دستاویزات پی ایس او کی ویب سائٹ پر موجود ہیں، ہم نے ملک میں آئل مافیا کا زور بھی توڑا،مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک سے اندھیروں کے خاتمے کیلئے کام شروع کیا اور آج بجلی بحران کا خاتمہ کیا جا چکا ہے اور 2600 میگاواٹ کے 2 کول پاور پلانٹ مکمل ہو چکے ہیں، انسداد دہشت گردی کیلئے بھی ہماری قیادت نے موثراور ٹھوس اقدامات کئے جن کی بدولت آج کا پاکستان 2013 کے پاکستان سے کافی بہتر اور پرامن ہے جو ترقی بھی کر رہا ہے ، دہشت گردی کے مسئلے پر بیشتر ممالک نے ہمارے موقف کو سراہا کیونکہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لازوال قربانیاں دی ہیں، سی پیک گیم چینجر منصوبہ ہے جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی تقدیر بدل جائے گی یہ بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا کارنامہ ہے ، ہمیں سی پیک کے قرضے انتہائی رعایتی قیمت پر ملے اور سی پیک کی رفتار اور کارکردگی بھی اطمینان بخش ہے ،پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی خفیہ پناہ گاہیں نہیں،نہ ہی امریکی موقف درست ہے ، پاکستان نے اپنا واضح موقف امریکہ کے سامنے پیش کر دیا،دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے وسائل سے لڑ رہے ہیں کولیشن سپورٹ فنڈ سے بھی ابھی بہت سی ادائیگیاں باقی ہیں ، 30فیصد سے زیادہ رقوم ادا نہیں ہوئیں۔