پٹرول مسلسل مہنگا حکومت چاہتی کیا ہے؟

Published On 28 Feb 2018 10:43 AM 

اگر پٹرول اور ڈیزل کی قیمت بڑھتی ہے تو پوری معیشت پر اس کا اثر پڑے گا اور ہر چیز کی قیمت بڑھ جائے گی۔

لاہور: ( فرخ سلیم ) اگر پٹرول اور ڈیزل کی قیمت بڑھتی ہے تو پوری معیشت پر اس کا اثر پڑے گا اور ہر چیز کی قیمت بڑھ جائے گی، سوال یہ ہے کہ پٹرول کی قیمت میں حکومت اضافہ کیوں کر رہی ہے ۔ اس کی بڑی وجہ روپے کی قدر میں کمی ہے۔ دوسری وجہ بجٹ ہے ، حکومت سات سو ارب کے لگ بھگ ٹیکس پٹرول اور ڈیزل کے ذریعے وصول کرتی ہے ۔ چونکہ ایف بی آر براہ راست ٹیکس وصول نہیں کر سکتا اس لئے کئی ٹیکس پٹرولیم مصنوعات پر لگا رکھے ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں ہماری برآمدات 25 ارب ڈالر سے مسلسل گر کر 20 ارب پر آ گئی ہیں، ملک کی 70 سالہ معاشی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ برآمدات مسلسل پانچ سال گرتی رہیں ۔ ایکسپورٹرز کہتے ہیں کہ گیس ، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں کی وجہ سے مصنوعات کی پیداواری لاگت اتنی بڑھ چکی ہے کہ عالمی منڈی میں وہ مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ بجلی کی پیداوار کیلئے ہم نے جتنے بھی معاہدے کر رکھے ہیں وہ تمام ڈالر سے منسلک ہیں، روپے کی قدر گرنے سے بجلی کی پیداواری لاگت بھی بڑھ جاتی ہے ۔ حکومت نے درآمدات پر کئی ڈیوٹیاں لگائی ہیں مگر وہ کم ہونے کو نہیں آ رہی ہیں۔ دراصل حکومت کا فوکس ہی غلط ہے۔

درآمدات کم کرنے کی کوشش کے بجائے حکومت کو برآمدات بڑھانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ پٹرول ، ڈیزل، کوکنگ آئل اور دالوں کی درآمد کی وجہ سے ہمارے لئے درآمدات کم کرنا ممکن نہیں، برآمدات میں اضافے کے بغیر ہم تجارتی خسارہ کم نہیں کر سکتے ۔ ایف اے ٹی ایف کا جہاں تک معاملہ ہے ، اس کے دو پہلو ہیں، ایک اینٹی منی لانڈرنگ ہے ، ایک سی ایف ٹی ہے جوکہ دہشت گردی کی فنڈنگ سے نمٹنے سے متعلق ہے ۔ ہم پر الزام یہ لگ رہا ہے کہ ہمارے اینٹی منی لانڈرنگ سسٹم میں کئی خامیاں ہیں۔دو سال قبل حکومت کوتحریری طو رپر آگاہ کیا گیا تھا کہ فلاں فلاں شرائط پوری کرنا ہیں تاکہ وائٹ لسٹ میں رہ سکیں مگر اس پر تو جہ نہیں دی گئی۔ ایف اے ٹی ایف کی تین لسٹیں ہیں، جن میں وائٹ لسٹ، گرے لسٹ اور بلیک لسٹ شامل ہیں۔ پاکستان میں اینٹی منی لانڈرنگ کے قوانین میں اصلاح نہیں ہو سکی ،کسی کو اس الزام میں گرفتار کیا گیا اور نہ سزا ہوئی، گرے لسٹ میں جانے سے پاکستان کا سب سے پہلے بینکنگ سیکٹر متاثر ہو گا۔

ہماری سالانہ درآمدات 55 ارب ڈالر، برآمدات 20 ارب ڈالر ہیں، سالانہ 75 ارب ڈالر کے لیٹرز آف کریڈٹ بینکنگ سسٹم کے ذریعے گزرتے ہیں، گرے لسٹ میں آنے پر انٹرنیشنل ٹرانزیکشن کی جانچ پڑتال شروع ہوجائیگی۔ بڑے غیرملکی بینک ایسے ملک کیساتھ ڈیل کرنا نہیں چاہتے جو کہ گرے لسٹ میں ہوں، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ڈالروں میں مزید کمی ہو گی، روپیہ مزید گرے گا، یہاں تک کہ ڈالر کی ملک میں قلت ہو جائیگی۔ ان تمام مسائل کے حل کیلئے ضروری ہے کہ غیر ضروری تنازعات کے بجائے ملک کی فکر کی جائے ، مناسب منصوبہ بندی کی جائے ۔