لاہور: (صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی) اللہ کے آخری نبی، صاحب لولاک آقائے کائنات سید الانبیاء امام الانبیاء فخر دوعالمﷺ کی محبت جان ایمان اور دین کی بنیاد ہے، عقیدہ ختم نبوت اسلام کی اساس ہے، عقیدہ ختم نبوت کو جاننا اور اس پر ایمان لانا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
یعنی مسلمان کا اس پر کامل ایمان ہے کہ حضور پاکﷺ اللہ کے آخری نبی و رسول ہیں، آپﷺ کے بعد روز محشر تک کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا، سرکار دوعالمﷺ کی اس دنیا رنگ و بو میں تشریف آوری کے بعد نبوت و رسالت کے دروازے اللہ نے بند فرما دیئے ہیں، جو سلسلہ سیدنا حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا وہ آپﷺ کی ذات پاک پر اللہ نے ختم فرما دیا۔
عقیدہ ختم نبوت دین اِسلام کی بنیاد، ہمارے ایمان کی روح اور مسلمانوں کی ایک بنیادی پہچان ہے، تحفظ ناموس رسالتﷺ کیلئے بنایا گیا قانون استحکام پاکستان کی ضمانت ہے، تمام مفسرین کا اس بات پراتفاق ہے کہ ’’خاتم النبین‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ آپﷺ آخری نبی ہیں، جو شخص آپﷺ کے زمانے میں یا آپﷺ کے بعد کسی کو نبوت ملنا مانے یا جائز جانے کافر اور مرتد ہے، نبی کریمﷺ کے بعد بہت سے کذابوں نے نبوت کے دعوے کئے، خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان کے خلاف جنگ کی اور اسے واصل جہنم کیا، اس جنگ میں سیکڑوں حفاظ کرامؓ نے جامِ شہادت نوش کیا، المختصر عقیدہ ختم نبوت کی حقانیت پر 100 سے زائد آیات قرآن مجید اور 200 سے زائد احادیث مبارکہ دلالت کرتی ہیں۔
قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: محمدﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہاں وہ اللہ کے رسول ہیں اور آخری نبی ہیں اوراللہ تعالیٰ تمام چیزوں کو جاننے والاہے۔ (سورۃالاحزاب: 40)، تم فرماؤ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں(سورۃ الاعراف: 158)۔
احادیث مبارکہ
(1) بیشک رسالت اور نبوت منقطع ہو چکی ہے، لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا اور نہ کوئی نبی۔ (2) میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو، (3) میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں، (4) ’’بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء کیا کرتے تھے، جب کوئی نبی فوت ہو جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ (5)’’میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے عمارت بنائی اور خوب حسین وجمیل بنائی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑی ہوئی تھی، لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اور اُس کی خوبی پر اظہارحیرت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی تو(سنو) وہ اینٹ میں ہوں اورم یں خاتم النبین ہوں (یعنی میرے آنے پر نبوت کی عمارت مکمل ہوگئی ہے، اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے جسے پُر کرنے کیلئے کوئی نبی آئے ‘‘۔
(6)’’میں پیدائش میں سب سے پہلے ہوں اور بعثت میں سب سے آخری ہوں‘‘۔ (7)’’میں اس شخص کا بھی رسول ہوں جس کو میں زندگی میں پالوں اور اس شخص کا بھی جو میرے بعد پیدا ہوگا‘‘۔(8)’’میں آخر الانبیاء ہوں اور تم سب سے آخری امت ہو‘‘۔ (9)’’مجھے 6 باتوں میں انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے، ایک مجھے مختصر اور جامع بات کہنے کی خوبی عطا کی گئی ہے، دوم رعب کے ذریعے مجھے نصرت بخشی گئی (یعنی بڑے سے بڑا آدمی بھی مجھ سے مرعوب ہو جاتا ہے)، سوئم میری امت پر غنیمت کا مال حلال کیا گیا، چہارم میرے لئے تمام رُوئے زمین کو مسجد بنا دیا گیا(یعنی میرے امتی ہر جگہ نماز ادا کر سکتے ہیں)، پنجم مجھے تمام دنیا کیلئے رسولﷺ بنایا گیا، چھٹی مجھ پر انبیاء(کے آنے)کا سلسلہ ختم کر دیا گیا‘‘۔
(10) ’’قریب ہے میری امت میں تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے جن میں سے ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا‘‘۔
اہل اسلام کے نزدیک تمام حسنات سے بڑھ کر نیکی ذکر مصطفیﷺ اور تحفظ ناموس مصطفیﷺ ہے، دیگرافعال ِشرعیہ پرعمل کر کے محبت رسول کریمؐ کا مظاہرہ کرتا ہے۔
آغاز اسلام سے ہی حضور پاکﷺ کی بلند و بالا ناموس اور شان میں ابو لہب اور ابو جہل اور ان کے معاونین نے تنقیص و توہین کے پہلو تلاش کرنے کی مذموم کوشش شروع کی تھی لیکن خالق کائنات نے اپنے محبوب کریمﷺ کی عظمتوں اور رفعتوں کا ورفعنا لک ذکر کی مزید بلندیاں اور عزت عطا فرمائی اور دشمنان اسلام کو ذلیل و رسوا کر دیا، ابو لہب و ابو جہل کے بعد اس کے پیروکاروں نے اس گھٹیا حرکت کو جاری رکھا اور کسی نے کسی طرح حرمت مصطفیﷺ پر حملوں کی ناپاک کوشش میں لگے رہے لیکن ہر دور میں رسول کریم ﷺکے دیوانوں، ان کے غلاموں نے ان بے دین کافروں کیخلاف کلمہ حق بلند کرکے جہاد کیا۔
توحید کے بعد عقیدہ ختم نبوت ہی وہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرو رکھا ہے، ہر مسلمان حضور پاکﷺ کی محبت اور ختم نبوت کو دنیا و آخرت کی نجات و تمام اعزازات کا سر چشمہ سمجھتا ہے، جب بھی اس عقیدہ پر کوئی زد نظر آتی ہے تو پوری دنیا کے مسلمان ایک نظر آتے ہیں اور اس کے تحفظ کیلئے اپنا تن من دھن قربان کر نے کیلئے میدان عمل میں نکل آتے ہیں۔
جب 1900ء میں انگریز کے خود کاشتہ پودے مرزا قادیانی نے اعلان نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تو علمائے اہل سنت اور صوفیائے کرامؒ نے بے مثال قربانیاں دے کر تحفظ ختم نبوت کیا اور مرزا کے رد میں جو سرگرمی کی وہ تاریخ کا سنہرا باب ہے، صوفیائے کرامؒ نے اس میدان میں اپنے تن من دھن کی بازی لگا کر ہر میدان میں قادیانی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ان مقدس قدسی صفات ہستیوں میں سب سے پہلا نام شمس العا رفین پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی ؒ کاہے جنہوں نے اس وقت علم جہاد بلند کیا جب مرزا قادیانی کو شہرت حاصل ہوئی اور کم علم لوگ اس سے متاثر ہونے لگے۔
آپؒ نے بھرپور طریقے سے اس فتنہ کورد فرمایا، رد قادیانیت میں اعلیٰ حضرت گولڑویؒ کو امیر کا مقام حاصل ہے، دریں اثناء مرزائی پاکستان کے آئین کے مطابق اقلیت قرار دیئے جا چکے ہیں، اس کا سہرا اعلیٰ حضرت پیر سید مہر علی شاہؒ کے سر ہے جنہوں نے رد مرزائیت میں نمایاں خدمات سر انجام دیں۔
امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں کہ اللہ ہر چیز سے آگاہ ہے اور وہ جانتا ہے کہ حضور نبی کریمﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں، جب حضرت عیسیٰ علیہ السلا م دوبارہ نازل ہوں گے تو وہ بھی امتی بن کے آئیں گے، شریعت محمدی کے پیر وکار ہوں گے، اللہ ہمیں حضور پاکﷺ کی سچی محبت عطا فرمائے اور ہمارے وطن عزیز پاکستان اور عالم اسلام کی سرحدوں کی مکمل حفاظت فرمائے اور نظام مصطفیﷺ جلد حکمرانوں کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی ترجمان جماعت اہلسنت پاکستان صوبہ پنجاب، خطیب جامعہ الطافیہ سلطان الذاکرین ہیں، 27 سال سے مختلف جرائد کیلئے لکھ رہے ہیں۔