کراچی: (فرحین عاطف) ننھا ابراہیم شرارت کرتے کرتے کھلے گٹر کی نذر ہو گیا۔۔ ماں دہائیاں دیتی رہ گئی لیکن کہیں شنوائی نہ ہوئی، کسی حکمران کے کانوں تک ماں کی دل چیرتی چیخیں نہ پہنچ سکیں۔ کون ہیں ہم؟ زمین پر رینگتے کیڑے؟ کہ جسے کبھی کوئی ٹینکر کچل ڈالتا ہے تو کبھی ٹرالروں تلے مسلے جاتے ہیں۔ کہیں دندناتے ڈاکو گھر اجاڑ ڈالتے ہیں تو کہیں نامعلوم گولی زندگی چھین لیتی ہے،،اور جو ایسے کسی حادثے سے بچ جائیں تو یہ ٹوٹی سڑکیں ،کھلے مین ہولز اور گٹر جانیں نگل لیتے ہیں۔
گزشتہ روزبھی ایسا ہی ایک دلخراش واقعہ پیش آیا ،نیپا چورنگی کے قریب واقع ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور کے باہر والدین کے ساتھ شاپنگ کے لیے آیا تین سالہ ابراہیم کھلے گٹر میں جا گرا۔ ماں باپ چیخ و پکار کرتے رہے، اپنی مدد آپ کے تحت مشینری منگوا کر ساری رات بچے کو تلاش کرتے رہے مگر انتظامیہ حرکت میں نہ آئی۔۔حادثے کو بارہ گھنٹے گزرنے کے بعددن چڑھے انتظامیہ کو ہوش آیا تو جائے حادثہ پر ڈی سی ایسٹ پہنچے مگر یہ تعین نہ کر سکے کہ لائن کس کی ہے اور ڈھکن کس نے لگانا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: مین ہول میں گرنے والے 3 سالہ بچے کی 14 گھنٹوں بعد لاش نکال لی گئی
بالاخر چودہ گھنٹے بعد ننھے ابراہیم کی لاش ملی۔ وہ جو کل تک زندگی سے بھرپور کھکھلا کر ہنستا تھا اسے کھلے گٹرنےبےجان کردیا۔۔ایک اور ماں کی گود اجڑ گئی، ایک اور خاندان غم میں ڈوب گیا، اس واقعے پر ہر آنکھ اشکبار اور فضا سوگوار ہے۔ مگر یہ نہیں پتا کہ ذمے دار کون؟
کیا المیہ ہے اس شہر کے باسیوں کا کہ حکمرانوں کی آپس کی کھینچا تانی ہی ختم نہیں ہوتی تو انہیں شہریوں کے بارے میں سوچنے کی فرصت کہاں۔۔۔
یہ میری سڑک، یہ تیری سڑک، یہ فلاں تھانے کی حدود وہ فلاں کا علاقہ،، کبھی فنڈز نہ ملنے کا رونا تو کبھی رقم ہوتے ہوئے بھی کام نہ کرنے کے عذر ہزار۔۔۔
جن کےخاندان بستے ہوں باہر، جنہیں پروٹوکول کے مزے لگ جائیں،ان کے پاس عوام کے لیے وقت کہاں،مرتے ہیں تو مرتے رہیں۔
آخر کراچی کا رکھوالا ہے کون؟
وفاقی، صوبائی یا بلدیاتی ادارے؟ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ، سندھ حکومت اور کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن شہر کی انتظامیہ اور ترقی کی ذمہ داری سنبھالنے کے دعوے دار تو ہیں لیکن ذمہ داری کوئی نہیں لیتا۔۔۔ کوئی نہیں سوچتا کراچی کی ترقی کا، کوئی نہیں سمجھتا یہاں کے مکینوں کے دکھ،کوئی نہیں ہے اس کا والی وارث۔۔
اس شہر میں اب جمہوریت کےصرف چیتھڑے ہیں اورحکمران آنکھیں اور کان بند کیے سب اچھا کا راگ الاپتے ہیں،بالکل ایسے ہی جیسےنیروجلتے روم کے آگے چین کی بانسری بجا رہا تھا۔۔



