لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) احتساب کا عمل سیاستدانوں سے شروع ہو کر جنرلز، ججز اور جرنلسٹ تک وسیع ہونا چاہئے۔ عام انتخابات میں حصہ لینے کیلئے جمع کروائے جانے والے کاغذات نامزدگی کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ قوم کو پتہ چل گیا کہ دن رات ان کے دکھوں میں گھلنے والے سیاستدان کروڑوں اور اربوں کی جائیدادوں کے مالک نکلے اور ان کی اخلاقی حالت یہ ہے کہ جب انہیں اپنے اثاثے الیکشن کمیشن میں آئینی مجبوری کے تحت فراہم کرنا پڑے تو انہوں نے اپنی اربوں کی جائیدادیں کروڑوں اور کروڑوں کے اثاثے لاکھوں اور لاکھوں کی گاڑیاں محض ہزاروں روپے کی ظاہر کیں، گویا یہاں بھی ہمارے سیاستدان باز نہ رہے اور انہوں نے الیکشن کمیشن اور عوام دونوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی لہٰذا اس حوالہ سے بہت سے سوالات اس لئے جنم لے رہے ہیں کہ کھربوں روپے کے مقروض ملک کی سیاسی جماعتوں کے لیڈر اور انتخابات لڑنے والے امیدوار کیا ملک کیلئے کوئی قربانی دینے کو تیار ہوں گے۔ اس طرح کی لیڈر شپ سے کیا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ پریشان حال عوام کے مسائل اور مشکلات کے حل کیلئے واقعتاً کوئی سنجیدہ کوشش کریں گے اور یہ کہ ان کے اثاثوں کیلئے بروئے کار لائے جانے والے ذرائع آمدن جائز ہیں اور اگر پاکستان کے اہل سیاست اس حد تک خوشحال اور امیر و کبیر ہیں تو ملک کے دیگر طاقتور طبقات کے نمایاں افراد کی دولت کا کیا عالم ہوگا۔
الیکشن کمیشن میں آئینی و قانونی ضرورت کے تحت سامنے آنے والے سیاستدانوں کے اثاثوں نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ یہ غریب قوم کے انتہائی امیر سیاستدان ہیں ان کے اربوں کھربوں کی جائیدادیں ان کے وسیع و عریض رقبے، ان کے گھوڑے، ان کی بلٹ پروف گاڑیاں، ان کی بیگمات کے زیورات اور ساڑھیاں، ان کے بنگلوں، محلوں اوران کی دولت کا غریب عوام کے رہن سہن اور پاکستانی عوام کے شب و روز سے کوئی موازنہ نہیں۔ ان کے اثاثوں کی تفصیلات پر نظر دوڑائیں تو بخوبی سمجھ آسکتا ہے قوم میں طبقاتی نظام، معاشی استحصال اور عدم مساوات کا کیا عالم ہے۔ یہی انداز سیاست اور تہذیب و تمدن ہے جس نے عوام کو پاکستانی سیاست سے بالکل الگ تھلگ کر رکھا ہے۔ ایک عام پاکستانی تو دو وقت کی روٹی کے چکر میں اس طرح سے پس رہا ہے کہ بندہ مزدور کی تلخی ایام کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ اس مہنگائی اور معاشی پریشانی کے عالم میں جس سیاسی قیادت کو عام آدمی کا سہارا بننا تھا وہ اور ان کے گھوڑے تو سیبوں کا مربہ چاٹ رہے ہیں اور ان کے ووٹر چادر چار دیواری کے تقدس، سر پر مکان کی چھت اور غربت و مفلسی کے تھپیڑے سہہ رہے ہیں۔ جب مالی حیثیت اور لائف سٹائل میں اس سطح تک فرق پڑ جائے تو عام آدمی کی سیاست اور سیاسی عمل سے دلچسپی کے ختم ہونے کی کہانی بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے۔
تازہ تفصیلات سامنے آنے کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں جس طرح میاں نواز شریف اور ان کی فیملی کے ذرائع آمدن، اثاثہ جات اور خیالی تنخواہوں پر چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کیا گیا اس سے سیاستدانوں کے اندر کافی حد تک پریشانی دکھائی دیتی ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ اثاثے تو شاید پورے ظاہر کر دئیے گئے ہیں مگر ان کی مالیت دانستہ کم کر دی گئی اگر معاملہ واقعتاً ایسا ہی نکلا تو ان انتخابی امیدواروں اور قوم کے بڑے رہنماؤں کی اخلاقی ساکھ اور مالی دیانت کا حال نہایت ہی پتلاہوگا۔ اب وقت آگیا ہے قوم کے تمام طبقات اپنے اپنے اثاثے اس غریب قوم کے سامنے رکھیں تا کہ پتہ چلے کہ اس بہتی گنگا میں کون کیسے ہاتھ دھو رہا ہے۔ کیونکہ اب تک دیکھا یہی گیا ہے احتساب اور کرپشن کے نام پر گالی محض سیاستدانوں کو دی جاتی رہی ہے۔ قید و بند کے دروازے بھی پاکستان میں سیاستدانوں پر کھلتے رہے ہیں مگر قوم کے دیگر طبقات بظاہر ابھی عوام کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک حیران کن انکشاف نگران وزیراعظم کے ذاتی اثاثے تھے۔ جس میں بیرون ملک جائیدادیں، درجنوں دکانیں اور کئی کئی پلاٹس صرف اسلام آباد جیسے شہر میں موجود تھے۔ ان کا ماضی ملک کے ایسے معزز ادارے سے رہا ہے جو اس کرپشن کے خلاف قوم کی واحد اور آخری امید بنا ہوا ہے۔ ملک میں اس وقت بلاتفریق احتساب ہی ملکی وحدت اور فیڈریشن کی مضبوطی کی ضرورت ہے۔ اس ملک میں احتساب اور کرپشن کا نعرہ صرف سیاستدانوں کیلئے استعمال ہوتا رہا تو سیاست کا میدان ہمیشہ کیلئے صاف ستھرے لوگوں کیلئے بند ہو جائے گا۔ اس ملک میں بڑے بڑے جنرلز اپنے اثاثے رضا کارانہ طور پر قوم کے سامنے رکھیں کیونکہ کوئی ذی شعور شہری یہ سمجھنے سے قاصر ہے ملک میں ایک مطلق العنان شخصیت کے اکاؤنٹ میں اچانک سے پیسے آجاتے ہیں اور اگر سعودی بادشاہ نے ان کی مدد کی ہے تو پھر قوم کو بتایا جائے اس کے عوض سابق مرد آہن مشرف نے ان کو کیا خدمات سرانجام دی ہیں۔ سیاستدانوں پر اب لازم ہے کہ نئے پارلیمان میں وسیع تر احتساب اور بلاامتیاز احتسابی عمل کیلئے قانون سازی کریں، پہلے سیاستدانوں کی ذات کٹہرے میں کھڑی ہو پھر اس ملک کے جنرلز، ججز اور طاقت کا نیا مرکز میڈیا بھی احتساب کی زد میں آئے۔ اگر صرف احتساب سیاستدان نامی مخلوق کا ہونا ہے تو ملک میں معیشت کی بہتری، سیاسی استحکام کی منزل کی طرف ایک قدم بھی نہیں اٹھایا جاسکتا۔