اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ قبل از وقت انتخابات ہو سکتے ہیں، کپتان کی سٹریٹجی کسی وقت بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے ٹی وی اینکرز اور سینئر صحافیوں سے ملاقات میں سیاسی، معاشی اور کرتارپور بارڈر سے متعلق معاملات پر بھی تفصیلی گفتگو کی۔
اعظم سواتی کیس
وزیراعظم کا ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ سو دن کے اندر تمام وزرا نے رپورٹس بھیج دی ہے، اسی ہفتے وزرا کی کارکردگی بارے فیصلہ کروں گا، ہو سکتا ہے کئی وزرا کو تبدیل کروں، تاہم اعظم سواتی کی جے آئی ٹی رپورٹ ابھی مجھے نہیں ملی، اعظم سواتی کیس میں کوئی مداخلت نہیں ہو رہی، اگر اعظم سواتی کی غلطی ہوئی تو خود استعفیٰ دیں گے۔ بابر اعوان کیخلاف ریفرنس آیا تو انہوں نے خود استعفی دیا، کسی کو بچانے کے لیے مداخلت نہیں کریں گے۔
قومی ادارے خسارے میں
ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے اور ریلوے سمیت تمام قومی ادارے خسارے میں ہیں، ہماری پالیسی ہے کہ ہولڈنگ کمپنی کے ذریعے اداروں کو پیشہ وارانہ انداز میں چلایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سابق حکومت کے خسارے باوجود موجودہ حکومت نے زبردست کام کیا، آئندہ دنوں میں پاکستان میں استحکام دیکھیں گے۔
وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور ڈی پی او پاکپتن کا معاملہ
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ کیا عثمان بزدار کسی پولیس افسر کو بلا کر اس سے پوچھ نہیں سکتا؟ چیف جسٹس کے اقربا پروری کے ریمارکس پر افسوس ہوا، عثمان بزدار نہیں بلکہ ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ آئی جی پنجاب نے کیا تھا، چیف منسٹر پنجاب کے دروازے ہر وقت کھلے ہیں۔
پاکستان میں پہلے کبھی حکومت میں ہوتے ہوئے کسی کیخلاف انکوائری نہیں ہوتی تھی، پاناما انکشافات کے دوران کسی ادارے نے نواز شریف کیخلاف تحقیقات نہیں کی۔ وزیرِاعلیٰ پنجاب نے شکایات ملنے پر پولیس افسر سے پوچھ گچھ کی، کیا عثمان بزدار کسی پولیس افسر کو بلا کر اس سے پوچھ نہیں سکتا؟
آزاد میڈیا کا کردار
قومی اسمبلی اور آزاد میڈیا چیک کے لیے ہوتا ہے، اگر کوئی وزیرٖ غلط کام کر رہا ہے تو اسے بے نقاب ہونا چاہیے، ایسا نظام لانا چاہتا ہوں جس سے نچلے طبقے کے لیے بہتری ہو، پاکستان میں سارا نظام ہی ایک طبقے کے لیے ہے۔ سینسرشپ بری چیز ہے، جمہوریت اورآمریت میں فرق ہوتا ہے، جمہوریت میں کوئی چیز نہیں چھپائی جا سکتی، معلومات وہ چھپاتا ہے جسے کوئی خوف ہو۔
سرمایہ کاری اور بزنس مین طبقے کو سہولیات دینے کا عزم
ملک میں چھوٹی اور درمیانی صنعتیں ختم ہو گئی ہیں۔ ہم سرمایہ کاروں کی مدد اور بزنس مین طبقے کیلئے سہولیات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ برازیل اور امریکا لائیو سٹاک میں بہت زیادہ پیسہ کما رہے ہیں۔ ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے بھی کہا کہ سرمایہ کاروں کے لیے سہولیات پیدا کرو۔
کرپشن کے خاتمے کا عزم
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستانی قوم فیصلہ کرے کہ کیا کرپشن کا نظام چلنے دینا ہے؟ تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں کرپشن نہیں ہوتی، جہاں زندگی بہتر وہاں بدعنوانی نہیں ہوتی، کرپشن کی وجہ سے ملک ترقی نہیں کر سکتا، میری کسی سے کوئی ذاتی لڑائی نہیں ہے، کرپشن کو ختم کرنا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ابھی تو ہم نے کسی کیخلاف کیس نہیں بنایا لیکن مخالفین نے پہلے ہی شور مچا دیا کیونکہ وہ ڈرے ہوئے ہیں، جس سطح کی کرپشن ہوئی، مجھے بھی اندازہ نہیں تھا، انہیں پتا ہے یہ پکڑے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کرپشن کیسز میں دیر کی وجہ سے خود تنگ ہوں، بدعنوانی سے کمایا ہوا پیسہ ملک میں واپس آئے گا اور آنے والے دنوں میں بڑے ڈالر آئیں گے۔
نیب کی کارکردگی پر سوال
وزیراعظم نے ایک بار پھر قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ بیوروکریٹس گوسلو پالیسی پر لگے ہوئے ہیں کہ حکومت زیادہ دیر نہیں چلے گی، اگر نیب میرے انڈر ہوتی تو پچاس بڑے لوگ جیلوں میں ہوتے، نیب چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہاتھ ڈال رہا ہے، بڑے لوگوں کو جب کرپشن پر پکڑا جاتا ہے تو نیچے لوگ خود ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
منی لانڈرنگ کیخلاف سخت قوانین لانے کا اعلان
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ منی لانڈرنگ سے متعلق سخت قانون لا رہے ہیں، ہمیں تباہ حال معیشت ملی، ڈالر کا بڑھنا یا کم ہونے میں حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ بڑے بڑے لوگ نام سامنے آنے سے ڈر رہے ہیں، گو سلو پالیسی والے افسران کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور اگر اپوزیشن ساتھ نہیں چلنا چاہتی تو نہ چلے، شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نہیں بنائیں گے۔
جنوبی پنجاب صوبے کا قیام
وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جنوبی پنجاب صوبہ بنانا ایک لمبا مرحلہ ہے، ہو سکتا ہے ملک میں قبل از وقت انتخابات ہوں، آنے والے 10 دنوں میں وزارتوں میں بھی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔
پاکستان کی معاشی صورتحال
ملکی معاشی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہمیں تباہ حال معیشت ملی، ڈالر کا بڑھنا یا کم ہونے میں حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔
کرتارپور راہداری
کرتارپور راہداری سے متعلق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم نے بھارت کے نفرت پھیلانے کا منصوبہ ناکام بنا دیا اور اس نفرت آمیز منصوبے کو روکنے کے لیے ہی کرتارپور کھولا، کرتارپور کھولنے کا مقصد کسی کو دھوکا دینا نہیں تھا جبکہ یہ فیصلہ گگلی نہیں ایک سیدھا سادہ فیصلہ ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ کرتارپور میں سکھوں کے چہروں پر بہت خوشی دیکھی۔ بھارتی وزرا سمرت کور اور نوجوت سنگھ سدھو بہت خوش ہوئے، ہرسمرت کور تو رو پڑی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ کرتارپور کے حوالے سے پوری قوم ساتھ کھڑی ہے۔ جرمنی اور فرانس نے آپس میں بڑی جنگیں لڑیں، بھارت اور ہم ایک قوم نہیں، الگ الگ ہیں۔
مسئلہ کشمیر
انہوں نے کہا کہ ہم مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پرعزم ہیں، دونوں حکومتیں چاہیں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم نے ایک بار پھر اپنے یوٹرن کے موقف کی حمایت کی اور کہا کہ یوٹرن عظیم لوگ ہی لیتے ہیں۔
سوئس اکاؤنٹس اور اقامے
انہوں نے بتایا کہ غیر قانونی طور پر پاکستانیوں کا اربوں روپیہ بیرون ملک ہے، یہ اسی وجہ سے ڈرے ہوئے ہیں، ہمیں ساری معلومات مل رہی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاناما انکشافات کے بعد لوگوں نے سوئٹزرلینڈ سے پیسے نکلوا لیے تھے، ہم نے سوئٹزرلینڈ سے پچھلے پانچ سال کا ڈیٹا مانگا ہے۔ سابق وزیراعظم، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع نے اقامے لیے ہوئے تھے، دبئی کی شہریت کی وجہ سے ان کی معلومات نہیں ملیں، اب معلوم ہوا ہے کہ ان لوگوں نے اقامے کیوں لیے تھے؟
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور چیئرمین پی اے سی کا معاملہ
وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن کا مقصد ہمیں پریشرائز کرنا ہے، اتنی کرپشن ہوئی اور اب کہتے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ ہے، دس سال میں چارٹر آف ڈیموکریسی کے نام پر ملک کو لوٹا گیا۔
شہباز شریف کیخلاف 56 کمپنیوں کے کیسز ہیں، اپوزیشن انھیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانا چاہتی ہے، شہباز شریف کو چیئرمین بنانے سے دنیا میں مذاق بنے گا۔
این آر او
این آر او کس نے مانگا کے سوال پر جواب دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم الیکشن جیت کر آئے، مجھے پہلے ہی دن تقریر نہیں کرنے دی گئی، پہلے ہی دن پارلیمانی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کر دیا تھا، میرا جرم کیا تھا؟
وزیراعظم نے کہا کہ بتایا جائے کونسا غلط کام کیا ہے؟ یہ احتساب کو انتقامی کارروائی کہتے ہیں، ایک کیس میرے دور میں نہیں بنایا گیا، اگر میں جمہوریت کے لیے آج کہہ دوں اکٹھے چلیں گے تو ان کے لیے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، مجھے کسی کا خوف یا ڈر نہیں ہے، حکومتی منشور کو فوج کی حمایت حاصل ہے۔