اسلام آباد: (دنیا نیوز) آئی جی اسلام آباد تبادلہ کیس میں نیا موڑ آگیا، اعظم سواتی نے وزارت چھوڑنے کی پیشکش کر دی، وزیراعظم کو رضا کارانہ طور پر استعفیٰ دینے سے آگاہ کر دیا۔ اعظم سواتی کا کہنا ہے رضا کارانہ طور پر اپنی وزارت سے الگ ہونے کیلئے تیار ہوں۔
یاد رہے گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہم نے رپورٹ پڑھ لی ہے، اعظم سواتی کیخلاف آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ٹرائل ہوگا، صرف یہ بتا دیں کہ آپ ٹرائل کس سے کرانا چاہتے ہیں ؟ بچوں اور خواتین کو اٹھا کر جیل میں ڈال دیا گیا، آپ حاکم ہیں، محکوم کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں ؟ بھینس دراصل آپ کے فارم ہاؤس میں داخل ہی نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا آئی جی صاحب آپ نے اب تک اس معاملے پر کیا کیا ؟ یہ آپ کی ایک ماہ کی کارکردگی ہے ؟ نئے آئی جی نے آتے ہی سرنگوں کر دیا ہے۔ جس پر آئی جی اسلام آباد نے کہا سر یہ معاملہ عدالت میں زیر التوا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کوئی زیر التوا نہیں تھا، آپ کو دیکھنا تھا اس معاملے میں کیا کرنا ہے۔
وکیل اعظم سواتی نے کہا عدالت نے میرے موکل سے 10 سوال پوچھے تھے، پہلا سوال تھا کیا آئی جی کا تبادلہ اعظم سواتی کے دباؤ پر کیا گیا، جے آئی ٹی نے کہا کہ تبادلہ پہلے ہی طے تھا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا فون نہ اٹھانے پر آئی جی اسلام آباد کا تبادلہ کیا گیا، حکومت کو جاکر بتائیں عدالتی نظرثانی کیا ہوتی ہے ؟۔
صدر سپریم کورٹ بار نے اعظم سواتی کو معاف کرنے کی درخواست کی اور کہا اعظم سواتی میرے ساتھ کام کرتے رہے ہیں، جرم ہوا ہے لیکن اس پر اتنی بڑی سزا نہ دیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ارب پتی آدمی ان سے مقابلہ کر رہا ہے جو 2 وقت کی روٹی نہیں کھا سکتے، ان کو سزا ملے گی تو شعور آئے گا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پوچھا تحریک انصاف نے اب تک اعظم سواتی کے خلاف کیا ایکشن لیا ؟ اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا نیب قوانین کے تحت معاملہ نہیں آتا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا پھر آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت لڑائی کریں، کیا اعظم سواتی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں ؟ ان کے پیسے ہمیں ڈیم فنڈز کے لیے بھی نہیں چاہئیں۔