اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کرٹ نے آئی جی اسلام آباد تبادلہ معطل کرنے کا حکم واپس لے لیا۔ عدالت نے تبادلے اور پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی کے اثاثوں کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تو وفاقی وزیر اعظم سواتی کے مخالف خاندان کو روسٹرم پر بلایا گیا۔ خاندان کے سربراہ نے بتایا کہ ملک کی عزت خراب نہیں کرنا چاہتے اس لیے اعظم سواتی کو معاف کر دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون کے مطابق غیر مساوی لوگوں میں صلح نہیں ہوسکتی، اعظم سواتی نے غریبوں پر ظلم کیا، ٹیلی فون نہ اٹھانے پر آئی جی کا تبادلہ کرا دیا گیا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اعظم سواتی شرمندہ ہیں، خاردار تاریں ان کی جائیداد کی حدود میں نہیں لگیں، اسلام میں بھی صلح کا تصور ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر صلح ہوگئی تو پھر وزیر استعفیٰ دے کیونکہ یہ بھی اسلامی تصور ہے، ظلم روکنا چاہتے ہیں، بچے یہ نہ سمجھیں کہ وہ تھرڈ کلاس شہری تھے، ملک چلانے کیلئے ایماندار لوگ چاہئیں۔
آئی جی اسلام آباد جان محمد نے پیش ہو کر کہا کہ وہ اپنے تبادلے کے لیے تیار ہیں۔ اس پر عدالت نے تبادلے کے حکومتی نوٹیفکیشن کی معطلی کا حکم واپس لے لیا۔ سپریم کورٹ نے آئی بی کے احمد رضوان، ایف آئی اے کے میر وائس نیاز اور ڈی جی نیب پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی۔ عدالت نے حکم دیا کہ کمیٹی آئی جی اسلام آباد کے تبادلے، اعظم سواتی کے اثاثوں اور امریکا میں معاملات کی جانچ پڑتال کر کے 14 روز میں رپورٹ پیش کرے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ تصور ختم کرنا ہے کہ طاقت اور سفارش کے ذریعے لوگوں کا استحصال کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کو نیا آئی جی لگانے کی اجازت دے دی گئی۔