لاہور: ( روزنامہ دنیا) تجزیہ کاروں کے مطابق آصف زرداری کی تقریر ماضی کے برخلاف قدرے مختصر اور کمزور تھی۔ سینئر صحافی مظہر عباس کا ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ الزامات بہت سنگین ہیں، آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ کو عدالت میں مشکلات کا سامنا کرنا ہو گا، اس مرتبہ بچنا مشکل ہے کیوں کہ یہ رپورٹ ایف آئی اے نے ٹھوس شواہد کے ساتھ بنائی ہے اور انہیں اگر مزید چار ماہ مل گئے تو مزید چیزیں سامنے آنے کے بھی قوی امکان ہیں۔ آصف زرداری خود پر لگے الزامات کا دفاع کر نہیں پا رہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق سندھ کے وزیر اعلٰی مراد علی شاہ کا نام بھی جے آئی ٹی میں پہلی مرتبہ آصف زرداری کے سہولت کار کے طور پر سامنے آیا ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ بلاول کی تقریر میں بھی اکثر باتیں پرانی تھیں لیکن یہ واضح ہے کہ جو موقف آصف زرداری کا ہے وہی بلاول بھٹو بھی دہرا رہے ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار کے آر فاروقی کہتے ہیں کہ بلاول نے جے آئی ٹی کو جھوٹا قرار دے کر اسے مسترد کرنے کی ہمت تو کی، مگر آصف زرداری نے تو اس پر بات ہی نہیں کی۔ ان کے مطابق یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ صرف اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کیلئے پیپلز پارٹی کی قیادت خصوصاً آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے گرد شکنجہ کسا جا رہا ہے، گزشتہ دس برسوں کے دوران کراچی میں بہت کچھ ہوا ہے۔ بلڈنگ کنٹرول کا ڈی جی منظور قادر کاکا، ڈاکٹر عاصم حسین، ایڈمنسٹریٹر ثاقب سومرو، شرجیل انعام میمن اور نثار مورائی کے ذریعے کمائے گئے اربوں روپے کہا ں گئے ؟ فالودے والے، رکشہ ڈرائیور اور دکانداروں کے اکاؤنٹس میں موجود اربوں روپے کیوں اور کیسے پہنچے ؟ اس سب کا جواب تو دینا ہوگا۔
سندھ میں سرکاری فنڈز کی خورد برد اور بدعنوانی کا معاملہ انتہائی سنگین ہے۔ انسداد بدعنوانی کے محکمہ کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے اس پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ اینٹی کرپشن کی رپورٹس کے مطابق صحت، تعلیم، ٹاؤن پلاننگ، بلدیات، اطلاعات، خوراک اور آبپاشی سمیت 17 محکموں میں اربوں کی کرپشن اور سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی جانب سے 72 کروڑ کی بدعنوانی کی تحقیقات تو خود وزیر اعلٰی سندھ کے حکم پر کئی گئی تھیں لیکن پھر یہ معاملہ مقدمہ کے اندراج اور گرفتاریوں کے بجائے سیاسی مصلحت کا شکار ہو گیا اور تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے والے افسر کا تبادلہ کر کے معاملے کو سرد خانے ڈال دیا گیا۔