لاہور: (سلمان غنی) ملک میں جاری احتسابی عمل اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی پکڑ دھکڑ اور بدعنوانی کی بنیاد پر آنے والے عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں سیاسی محاذ پر ایسی کیفیت طاری کرنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ پورے احتسابی عمل کو ہی مشتبہ بنا دیا جائے تا کہ ملک کے اندر کرپشن ، لوٹ مار اور بے ضابطگیوں کے مرتکب افراد کے خلاف قانون کا شکنجہ کسا نہ جا سکے۔
یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے ذمہ داران اپنی قیادت کے گرد گھیرا تنگ ہوتا دیکھ کر ان کے خلاف الزامات پر صفائی دینے کے بجائے حکومت کے اندر موجود اہم افراد جن کے خلاف نیب میں مقدمات موجود ہیں کو ٹارگٹ کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں محض حکومت مخالف صفوں میں ہونے کی سزا دی جا رہی ہے، احتساب کا یہ عمل صرف اپوزیشن تک محدود ہے، لہٰذا جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا واقعتاً احتساب یکطرفہ ہے، انتقام پر مبنی ہے، یہ عمل جاری رہنا چاہئے یا روک دینا چاہیے اور آخر پاکستان میں برسراقتدار رہنے والے اس عمل سے خوفزدہ کیوں ہیں؟۔
زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو عوام اس حوالے سے یکسو ہیں کہ ملک کو لوٹنے والے لٹیروں کے گرد شکنجہ ضرور کسا جانا چاہیے کیونکہ پاکستان کرپشن کی آگ میں جلتا رہا مگر اس حوالے سے منتخب حکومتوں نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ بلا تفریق احتساب کے وعدوں کے باوجود جس طرح مرضی اور ترجیح کی بنیاد پر احتسابی سلسلہ جاری ہے وہ ناقابل اطمینان اور اصلاح طلب ہے۔ احتسابی عمل پر اعتماد پیدا کرنے کیلئے چند اقدامات ضروری ہیں، اپوزیشن اگر اسے انتقام ثابت کرنے میں کامیاب رہی تو احتساب خواب بن جائیگا۔ سالوں سے زیر تفتیش مقدمات کی تحقیقات نہ ہونے سے بے یقینی، الجھن بڑھ رہی ہے ۔ضرورت بھی اس امر کی ہے کہ احتساب کے عمل کو کسی خاص فرد، جماعت یا خاندان تک محدود نہیں ہونا چاہئے اور بلا تفریق ان تمام افراد اور خاندانوں کو گرفت میں لانا چاہئے۔ لہٰذا وقت کی آواز اور پکار یہی ہے کہ احتساب کا عمل لازمی اور موثر انداز میں آگے بڑھنا چاہئے۔
تفتیش پوری دیانتداری، محنت اور پیشہ ورانہ انداز میں ہونی چاہئے۔ مقدمات کے فیصلے متعین وقت میں انصاف کی روح کے مطابق ہونے چاہئیں، اس سے احتسابی عمل پر بھروسہ اور اعتماد بڑھے گا، اگر ا س سے احتساب کی ساکھ بہتر ہوگئی تو آنے والے وقت میں کرپشن اور لوٹ مار کے رجحانات کا سدباب ہوگا۔ جہاں تک اپوزیشن کے الزامات کا تعلق ہے تو اپوزیشن ایک منظم انداز میں یہ مہم چلائے ہوئے ہے کہ احتساب کا عمل جانبدارانہ ہے اور ٹارگٹ حکومتی مخالفین ہیں اور اب تو انہوں نے کھلم کھلا حکومت میں موجود ان افراد کے نام لینا شروع کر دیئے ہیں جو اہم پوزیشن پر موجود ہیں اور ان کے خلاف نیب کے مقدمات پر تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔ خدانخواستہ اگر احتساب کے خلاف جاری مہم کامیاب ہوتی ہے تو پھر نہ تو مقاصد پاکستان کی تکمیل ہوگی نہ یہاں ترقی و خوشحالی کا عمل نتیجہ خیز بنے گا۔