اسلام آباد: (دنیا نیوز) سابق وزیر اعظم نواز شریف اور اُن کے بچوں کی اِن مشکلات کا آغاز 3 اپریل 2016 سے ہوا، پاناما کی لا فرم موزیک فونسیکا کی لیک ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات نے تہلکہ مچایا۔ جس میں دنیا بھر کے امیر افراد کی جانب سے اثاثہ جات 'آف شور' کمپنیوں کے ذریعے چھپائے جانے کا انکشاف ہوا، دستاویزات میں نواز شریف سمیت کئی حکمرانوں کے نام سامنے آئے۔
پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے نواز شریف اور ان کے بچوں کےخلاف تین ریفرنس 8 ستمبر 2017 کو احتساب عدالت میں دائر کئے، نیب پراسیکیوٹر کے مطابق نواز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے وزارت اعلیٰ اور وزارت عظمیٰ کے دوران حسن اور حسین نواز کے نام بے نامی جائیدادیں بنائیں، اس دوران بچے زیر کفالت تھے، بچوں کے نام 16 آف شور کمپنیاں بنائی گئیں۔
4.2 ملین پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کیلئے بچوں کے پاس کوئی ذرائع آمدن نہیں تھے، نواز شریف ہی العزیزیہ اور ہل میٹل کمپنی کے اصل مالک ہیں، شریف خاندان کا موقف ہے کہ جے آئی ٹی کی تفتیش جانبدارانہ ہے، بچوں نے دادا سے ملنے والی رقم کے ذریعے مل اور کمپنی بنائی، العزیزیہ سٹیل ملز قطری سرمایہ کاری سے خریدی گئی۔ حسن نواز کو کاروبار کیلئے سرمایہ بھی قطری نے فراہم کیا، جس کی بنیاد پر فلیگ شپ کمپنی بنائی گئی، تمام جائیدادیں بچوں کے نام ہیں، نوازشریف کا اِن جائیدادوں سے کوئی تعلق نہیں۔
مسلم لیگ ن کے قائد 26 ستمبر 2017 کو پہلي بار احتساب عدالت ميں پيش ہوئے، 19 اکتوبر 2017 کو العزیزیہ اور 20 اکتوبر کو فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف پر فرد جرم عائد کی گئی، 20 اکتوبر کو ہی سابق وزیر اعظم کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کو مفرور قرار دیا گیا۔ 18 دسمبر 2018 کو آخری سماعت تک پیشیوں کی تعداد 134 ہو گئی۔
احتساب عدالت نمبر ایک اور دو میں مجموعی طور پر 183 سماعتیں ہوئیں، نواز شریف 134 بار پیش ہوئے، 49 سماعتوں پر حاضری سے استثنیٰ دیا گیا، العزیزیہ سٹیل میں 22 اور فلیگ شپ ریفرنس میں 16 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے، نواز شریف نے اپنی صفائی میں ایک بھی گواہ پیش نہیں کیا۔
احتساب عدالت میں ریفرنسز کی 103 سماعتيں جج محمد بشير نے کیں جبکہ جج ارشد ملک نے باقی 80 سماعتیں کیں۔ لندن فلیٹس کیس کا فیصلہ پہلے ہی آ چکا جس میں سزا یافتہ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی ضمانت ہوئی تھی۔