لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) یو اے ای کے ولی عہد شیخ محمد اپنا ایک روزہ مختصر دورہ مکمل کر کے پاکستان سے واپس اپنے ملک چلے گئے۔ نئی حکومت کے آنے کے بعد بظاہر پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات میں بڑی گرمجوشی محسوس کی جا رہی ہے۔
گزشتہ تین ماہ میں دونوں ملکوں کی اعلیٰ ترین قیادتوں میں تیسری بار ملاقات ہوئی۔ ملاقاتوں کے اس عمل کا واضح مطلب ہے کہ دونوں ممالک نہ صرف برادرانہ، سیاسی تعلقات رکھتے ہیں بلکہ جیو پالیٹکس میں بھی قربت رکھتے ہیں۔ گزشتہ حکومت کے آخری دو سالوں میں پاکستان اور عرب امارات میں کافی تلخی محسوس کی گئی تھی۔ جس کا پسِ منظر سعودی عرب کی یمن جنگ تھی۔ کیا پاکستان یو اے ای سے خصوصی معاشی تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے ؟ کیا برادرانہ تعلقات ہر بار معاشی امداد مانگنے سے خراب تو نہیں ہونگے ؟ قرض لینے کے بعد اس معاشی مرض سے نکلنے کی دوا کیا ہے، حکومت کے پاس؟ اور کیا اب بھی ہمیں آئی ایم ایف سے مدد لینا ہوگی؟ موجودہ حکومت خارجہ پالیسی کے میدان میں قدرے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
شروع میں وزیراعظم نے بیرون ملک دورے نہ کرنے کا اعلان کیا تھا جسے ہر ذی ہوش نے نامناسب اور غیر ضروری خیال کیا تھا مگر جلد ہی اقتدار میں بیٹھے پالیسی سازوں نے محسوس کیا کہ خارجہ پالیسی کا بوجھ اٹھانا محض شاہ محمود قریشی کا کام نہیں، اس کیلئے وزیراعظم بھی دوست ممالک کے ساتھ خصوصی تعلقات از سر نو ترتیب کیلئے میدانِ عمل میں آئے۔ وزیراعظم کی اس نئی پالیسی کے مد نظر پاکستان کا بڑھتا معاشی بحران اور ادائیگیوں کا عدم توازن اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا۔ ظاہر ہے ان کی ترجیح جیو پالیٹکس کے ساتھ ساتھ معاشی تعلقات تھے۔ پاکستان کو اس محاذ پر کافی کامیابی ہوئی۔ پہلے سعودی عرب نے دستِ تعاون بڑھایا، اس کے بعد یو اے ای کو بھی اپنی جیب ڈھیلی کرنا پڑی۔ ساتھ ساتھ چین سے بھی قرضوں کے علاوہ سٹیٹ بینک کے اکاؤنٹ میں روپے کی گرتی قیمت کو سنبھالا دینے کیلئے تقریباً 3 ارب ڈالر رکھوانے کی باتیں عام ہوئیں۔
وزیراعظم نے کچھ دن پہلے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر اعلان کیا کہ یو اے ای نے بھی تین ارب ڈالر قرض دینے کی حامی بھر لی اور اب اماراتی ولی عہد پاکستان تشریف بھی لے آئے۔ واضح رہے کہ گزشتہ 12 برسوں کے بعد کوئی بڑی اماراتی شخصیت ہمارے ملک تشریف لائی۔ اس دورے کے پسِ منظر میں ملائیشیا اور ترکی کا دورہ بھی اہم ہے جہاں سے امداد نہ بھی ملی تو ملک کو سرمایہ کاری کی امید ضرور ہے۔ مگر ہمارے سامنے دوبارہ یہی سوال ہے کہ برادرانہ تعلقات کب تک کشکول برداروں سے بہتر رہیں گے ؟ پاکستان کے پاس اس معاشی امداد اور قرضوں کا کیا جواب ہے جو سعودی عرب اور امارات کو دینا پڑے گا؟ خدشات اس وقت بڑھ جاتے ہیں جب نیویارک ٹائمز نے خبر دی کہ پاکستان یمن جنگ میں حصہ لے چکا ہے۔ اگر قرضوں اور امداد کے حصول کا پاکستانی رد عمل یہی ہے تو ہمسائے میں بیٹھے ایرانیوں کی کیا کیفیت ہوگی؟ پاکستان تو ہمیشہ مسلم ممالک کے جھگڑوں میں پڑنے کی بجائے ‘‘ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے ’’ کا نعرہ بلند کرتا رہا ہے۔ اگر پاکستان نے تعاون کا جواب فوجی امداد میں دینا ہے تو معاملہ مزید سنگین ہو جائے گا۔
یہ سوال بھی نہایت غور طلب ہے اور اس میں کافی مایوسی کا سامان ہے کہ ملک اس وقت قرض کے پیچھے تو بھاگ رہا ہے اور اسے جزوی کامیابی بھی مل رہی ہے مگر اصل کامیابی تو پاکستانی بیمار معیشت کا ٹھیک ہونا ہے ۔ بیمار اور کمزور معیشت قرض سے نہیں بلکہ جامع اور سٹرکچرل اصلاحات سے ٹھیک ہوتی ہیں۔ اس وقت ملک میں بے عملی اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کا دور دورہ ہے۔ گورننس کا اہم ذریعہ بیورو کریسی، چپ سادھے بیٹھی محسوس ہو رہی ہے۔ ملک کا گھریلو سرمایہ کار بے چین ہے اور سرمایہ روکے بہتر وقت کا منتظر ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو یہ قرض بھی آبی بخارات کی طرح اڑ جائے گا اور پھر ہمیں دوبارہ آئی ایم ایف کے دروازے پر جانا پڑے گا اور ان کی شرائط پاکستان کے بجائے ان کے اپنے مفادات کے تابع ہوتی ہیں اور وہ قرض کیلئے بھی واشنگٹن کے اشارئہ ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔ جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ سعودی عرب ، چین اور ابوظہبی کے بعد بھی ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت رہے گی تو حقائق یہی ہیں کہ باوجود بڑے پیمانے پر ملنے والے قرض اور یقین دہانیوں کے ہمیں آئی ایم ایف کی بھی ضرورت ہے ۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک کا سہارا بھی درکار ہے کیونکہ ہمیں جو کام خود کرنا ہے ہم وہ نہیں کر پا رہے۔
ہمیں جو پیسہ پاکستان کے باہر سے لانا تھا وہ نہیں لا سکے۔ ہماری ایمنسٹی سکیم بھی کارگر نہیں ہو پائیں اور یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف سے رجوع نہ کرنے یا گرمجوشی نہ دکھانے کے باوجود ہم ان کی تمام شرائط پوری کرتے جا رہے ہیں۔ روپے کی قدر گرا لی گئی ہے۔ بجلی اورہزاروں اشیا کے نرخوں میں اضافہ کے باعث ایک مہنگائی کا طوفان گزر چکا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہم خود کو در پیش بحرانوں کے، خود ذمہ دار ہیں۔ تحریک انصاف کا دعویٰ تھا کہ ہم لوٹی دولت واپس لا کر تعلیم اور صحت پر لگائیں گے ۔ لیکن اب یہ نعرہ (یا خواب )بھی حقیقت بنتا نظر نہیں آ رہا جب تک ہمارا انحصار خود اپنے وسائل، ٹیکس سسٹم اور حکمت عملی پر ہوگا ہم مستقل بنیادوں پر معاشی بحران سے نکل نہیں سکتے اب بھی جو اقدامات ہو رہے ہیں یہ عارضی ہیں۔ مستقل بنیادوں پر استحکام کیلئے مؤثر حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔ اس پر کام کرنا ہوگا۔