ننھی زینب کے قتل کو ایک برس مکمل، بچے آج بھی غیر محفوظ

Last Updated On 10 January,2019 06:27 pm

قصور: (ویب ڈیسک) ننھی زینب کی آج پہلی برسی منائی جارہی ہے، گزشتہ سال زینب کوزیادتی کے بعد قتل کیاگیا تھا جبکہ زینب کے قاتل کوپھانسی دی جاچکی ہے۔

قصور میں گذشتہ چند برسوں میں زینب سمیت انھی کی ہم عمر آٹھ کم سن بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے والے مجرم 24 سالہ عمران علی کو گذشتہ برس اکتوبر میں پھانسی دی گئی تھی۔

ننھی زینب کے بہیمانہ قتل نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا، چار جنوری ننھی زینب کو ٹیوشن پڑھنے کے لیے جاتے ہوئے راستے میں اغوا کیا گیا تھا، جس کے دو روز بعد اس کی لاش ایک کچرا کنڈی سے برآمد ہوئی اور دس جنوری کو بچی کا جنازہ اور تدفین کی گئی تھی۔
زینب کے قتل کے بعد ملک بھرمیں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور قصور میں مظاہروں کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔

زینب قتل کیس

بعد ازاں زینب قتل کیس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیا تھا۔زینب قتل کیس پاکستان کی تاریخ کا سب سے مختصرٹرائل تھا، جو چالان جمع ہونے کے سات روز میں مکمل کیا گیا تھا ، انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زینب قتل کیس کے ملزم عمران کے خلاف جیل میں روزانہ تقریباً 10 گھنٹے سماعت ہوئی اور اس دوران 25 گواہوں نے شہادتیں ریکارڈ کروائیں، اس دوران مجرم کے وکیل نے بھی اس کا دفاع کرنے سے انکار کردیا جس کے بعد اسے سرکاری وکیل مہیا کیا گیا۔

ملزم عمران کو پھانسی


17 فروری کو انسداد دہشت گردی عدالت نے مجرم عمران کو چار مرتبہ سزائے موت، عمر قید، سات سال قید اور 32 لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں سنائی تھیں۔ عدالتی فیصلے پر زینب کے والد امین انصاری نے اطمینان کا اظہار کیا اور اس مطالبے کو دہرایا کہ قاتل عمران کو سر عام پھانسی دی جائے۔

عمران نے زینب سمیت 7 بچیوں کے ساتھ زیادتی اور ان کے قتل کا اعتراف کیا تھا ، جس پر مجرم کو مجموعی طور پر 21 بار سزائے موت کا حکم جاری کیا گیا تھا، بعد ازاں زینب کے قاتل نے سپریم کورٹ میں سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کی جسے عدالت نے مسترد کردیا، اس کے بعد عمران نے صدر مملکت سے رحم کی اپیل کی تھی۔

اسی دوران ننھی زینب کے والد امین انصاری نے صدر مملکت ممنون حسین کو خط لکھ کر درخواست کی کہ زینب کے قاتل عمران کی رحم کی اپیل مسترد کردی جائے۔

بعدازاں مجرم عمران علی کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ حکام کا کہنا تھا کہ مجرم عمران علی کو صبح ساڑھے پانچ بجے تختہ دار پر لٹکایا گیا اور پھانسی دیے جانے کے وقت زینب کے والد امین انصاری بھی موجود تھے۔ جیل کے حکام نے مجرم عمران علی کی لاش کو ان کے اہلخانہ کے حوالے کر دیا وہ آخری رسومات کے لیے اسے قصور لے گئے۔ جس موقع پر سکیورٹی کے لیے پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد بھی ان کے ساتھ تھی۔ زینب کے والد امین انصاری نے جیل کے باہر میڈیا سے مجرم کی پھانسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کا انجام انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اسے تختہ دار پر لٹکایا گیا اور اسے نصف گھنٹے تک وہاں لٹکائے رکھا گیا۔ خیال رہے کہ زینب کے والد نے مجرم کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا تھا تاہم لاہور ہائی کورٹ نے یہ درخواست مسترد کر دی تھی۔

پاکستان میں زینب سے جنسی زیادتی کے واقعے نے سماج کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور مجرم عمران علی کی پھانسی کے موقع پر زینب کے قتل کا معاملہ ایک مرتبہ پھر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ٹاپ ٹرینڈز میں شامل رہا۔

#ZainabMurderCase اور "Imran Ali" کا نام ٹرینڈ کرتا رہا اور جہاں زینب کی تصاویر کے ساتھ عمران علی کی پھانسی کی خبر شیئر کی جاتی رہی وہیں پاکستان میں انصاف کے نظام پر بھی بحث ہوتی رہی۔ سوشل میڈیا پر یہ سوالات بھی اٹھائے گئے کہ عمران جیسے کئی کردار اب بھی ہمارے معاشرے میں کھلے عام گھوم رہے ہیں۔

ملک میں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات کے مسئلے کو اگرچہ رپورٹ ہونے کے باوجود زیادہ اہمیت  نہیں دی گئی لیکن گزشتہ برس جنوری میں آٹھ سالہ زینب کے قتل کے بعد ملک بھر میں عوامی غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور شاید پہلی بار اس مسئلے پر کھل کر بات کی گئی اور یہ ایسا ہی تھا جب ہمسایہ ملک انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں بس ریپ کے بعد شدید عوامی ردعمل سامنے آیا اور حکومت کو ریپ کے واقعات کو روکنے کے سخت قانون سازی کرنا پڑی۔

لیکن اگر پاکستان کی بات کی جائے تو زینب کیس کے بعد حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا لیکن تاحال یہ وعدے وفا نہیں ہو سکے اور بچوں سے جنسی زیادتی کے خلاف ٹھوس اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے ہیں۔

بچوں کا استحصال، ہر دن نئی کہانی

زینب کے والد دیگر والدین میں اس حوالے سے آگہی پھیلانے پر اپنی تمام تر توانائی مرکوز کیے ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق محض ایک روز قبل قصور سے چند کلومیٹر دور واقع ایک قصبے سے ایک صاحب ان سے مشورہ کرنے آئے۔ ان کی کمسن بچی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

 انھوں نے بتایا کہ بچی سے زیادتی کرنے والے ملزم کا ڈی این اے بھی میچ کر گیا اور اس نے اقبالِ جرم بھی کر لیا تھا پھر بھی اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔ اب وہ مظلوم کہاں جائے؟ 

امین انصاری سمجھتے ہیں کہ قصور کے بچے آج بھی محفوظ نہیں ہیں۔گذشتہ برس سامنے آنے والی اپنی سالانہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ساحل کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے بچے محفوظ نہیں ہیں۔ ساحل کے میڈیا پروگرام آفیسر ممتاز گوہر نے میڈیا کو بتایا کہ سنہ 2018 کے پہلے چھ ماہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں 2322 بچے زیادتی کا شکار ہوئے۔ ممتاز گوہر کا کہنا تھا کہ  ان اعداد و شمار کو دیکھیں تو اس کا مطلب ہے پاکستان میں روزانہ 12 بچے زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔  ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2017 کے مقابلے میں سنہ 2018 کے پہلے چھ ماہ میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی شرح میں 32 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ سنہ 2017 میں ایسے 3445 واقعات سامنے آئے تھے۔

صوبہ پنجاب میں چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی گذشتہ برس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ادارے نے 5157 گمشدہ، لاوارث یا گھروں سے بھاگ جانے والے بچے اور بچیوں کی دادرسی کی اور ان میں سے 4987 کو ان کے خاندان سے ملا دیا گیا۔ ادارے کے ایک تحقیقاتی افسر کے مطابق ایسی حالت میں ملنے والے دادرسی کے طلب گار زیادہ تر بچے اور بچیاں جنسی زیادتی کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں۔

موثر قانون سازی کا فقدان

حکومتی یا فلاحی تحقیقاتی ادارے ان وجوہات اور عناصر کا تعین با رہا کر چکے ہیں جو بچوں سے زیادتی کا سبب بنتے ہیں۔ ان میں آگہی کی کمی، کمزور قوانین یا پھر ان پر عملدرآمد کا فقدان نمایاں ہیں۔


کچھ روز قبل وفاقی محتسب سید طاہر شہباز نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ دو ہزار اٹھارہ میں ملک بھر میں ایسے چار ہزار ایک سو انتتالیس واقعات سامنے آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں رونما ہوئے، جہاں ایک ہزار نواسی بچے جنسی زیادتی کا شکار بنے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قصور میں گزشتہ دس برسوں میں 272 واقعات ہوئے، جس میں با اثر لوگ ملوث تھے۔

وفاقی محتسب کی اس رپورٹ پر انسانی اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کی رکن انیس ہارون نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا، ’’حالیہ برسوں میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات روکنے کے لیے قانون سازی کی گئی ہے، جیسا کہ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی یا چائلد پروٹیکشن سیل کی طرز کے ادارے تقریباً تمام صوبوں میں ہیں۔ ان واقعات کی روک تھام کے لیے قوانین بھی ہیں لیکن ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد نہیں ہو رہا۔‘‘

انیس ہارون کے بقول اس کی ایک وجہ ریفرل سسٹم Referral System کی عدم موجودگی ہے،’’ہم نے سندھ میں ان قوانین میں ترمیم کی بات ہے اور یہ تجویز کیا ہے کہ ریفرل سسٹم کو ان قوانین کا حصہ بنایا جائے تاکہ پتا چل سکے کہ اگر ایک بچے کے ساتھ زیادتی ہو گئی ہے، تو اسے سب سے پہلے رپورٹ کہاں ہونا چاہیے، میڈیکل کی سہولت کس طرح بر وقت دی جاسکتی ہے۔ اس کی نفسیاتی حالت کو بہتر کرنے کے لیے اسے کہاں بھیجا جانا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ تو ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔ اس میں ہمیں یونیسف اور سندھ حکومت کا بھی تعاون حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ہم چائلڈ رائٹس کمیشن پر بھی کام کر رہے ہیں، جو اس طرح کے واقعات کو کم کرنے میں مزید معاون ہو گا۔‘‘

انسانی اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے وفاقی محتسب کی اس رپورٹ پر تشویش کا اظہار کیا ہے، جس میں انہوں نے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافے کا انکشاف کیا ہے۔

بڑھتی ہوئی اخلاقی گراوٹ کی وجوہات

تنظیم ساحل کے ترجمان ممتاز حسین گوہر کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی اخلاقی گراوٹ، انصاف کے نظام کی کمزوری، معاشر تی رویے اور تفتیشی عملے کی غفلت ان چند عوامل میں سے ہیں، جو اس طرح کے واقعات کا سبب بنتے ہیں،’’ملک میں کئی گینگ منظم اندازمیں بچوں کو فحش فلمیں دکھا کر اخلاقی طور پر پہلے خراب کرتے ہیں اور پھر ان کواستعمال کر کے انہیں بلیک میل کرتے ہیں۔ سرگودھا اور لاہور میں پکڑے جانے والے ملزموں نے اسی طرح کے کام کیے تھے۔ وہ پورا چائلد پورنو گرافی کا نیٹ ورک چلا رہے تھے۔ ایف آئی اے کی اتنی استعداد نہیں کہ وہ بروقت ایسے افراد کو پکڑ سکے۔ معاشرتی رویوں کی وجہ سے کئی گھرانے اس طرح کے واقعات کو رپورٹ ہی نہیں کرتے، جس کی وجہ سے مجرموں کو حوصلہ ملتا ہے۔ ان تمام اسباب کی وجہ سے اس طرح کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔‘‘

ایک اندازے کے مطابق 76فیصد ایسے واقعات دیہاتوں میں رونما ہوتے ہیں جب کہ شہروں میں بے گھر بچے جنسی زیادتی کے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ ممتاز گوہر کے خیال میں دیہاتوں میں سماجی دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے، جس کا فائدہ عموماً ملزم کو ہوتا ہے،’’دیہاتوں میں عدالتیں موجود نہیں ہیں کیونکہ انصاف کے ادارے عموماً دور ہوتے ہیں۔ غریب افراد کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ روز روز شہر کے چکر لگائیں۔ اس لیے وہ تنگ آکر صلح صفائی کر لیتے ہیں۔ والدین کی خاموشی بھی ایک لحاظ سے ملزم کے حق میں جاتی ہے۔ عام طور پر ان واقعات کے بعد والدین کچھ دنوں خاموش رہتے ہیں، جس کی وجہ سے بچے کا وقت پر میڈیکل چیک اپ نہیں ہو پاتا۔ اہم ثبوت ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے ملزم کی پوزیشن مضبوط ہوجاتی ہے اور وہ آسانی سے رہا ہوجاتا ہے۔‘‘

ممتاز گوہر کے بقول حکومت کو چاہیے کہ وہ تفتیش کے جدید ادارے دیہاتوں اور پسماندہ علاقوں میں بنائے، پولیس کے نظام کو ٹھیک کرے اور ان علاقوں میں انصاف کے اداروں کا نیٹ ورک بچھائے تاکہ ظلم کے شکار بچوں کو انصاف بھی ملے اور اس طرح کے واقعات کی روک تھام بھی ہو سکے۔