لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) سینئر صوبائی وزیر علیم خان کی پاناما سمیت آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزامات کے تحت گرفتاری کے عمل سے ملک کے اعلیٰ سطحی حکومتی و سیاسی حلقوں میں بھونچال سا آ گیا ہے اور گرفتاری کی ٹائمنگ سمیت اہم سوالات یہ کھڑے نظر آ رہے ہیں کہ سینئر وزیر کی گرفتاری کے اثرات خود حکمران جماعت اور پنجاب حکومت پر کیا ہونگے۔ سینئر وزیر کی جانب سے گرفتاری کے فوری بعد وزارت سے استعفے کا کیا جواز تھا اور یہ کہ مذکورہ گرفتاری کے بعد احتساب کا یہ عمل کس کس تک وسیع تر ہوگا۔
جہاں تک ملک میں احتساب کے عمل اور علیم خان کی گرفتاری کی ٹائمنگ کا تعلق ہے تو اس وقت ملک میں جاری احتساب کا عمل اپنی ساکھ بڑی تیزی سے کھوتا جا رہا تھا اور آئے روز اپوزیشن کی صف اول کی قیادت احتساب عدالتوں اور نیب انکوائریز میں اپنی کتاب زندگی کے اوراقِ پریشان لیکر گھوم رہی تھی۔ دوسری طرف حکومتی شخصیات کا نام تو بہت سکینڈلز اور بدعنوانی کے مقدمات میں تھا مگر بارگاہ احتساب ان کی طرف متوجہ نہیں ہوئی تھی۔ مگر یکا یک پنجاب کے سینئر وزیر علیم خان کو نیب انکوائری میں پیشی پر جس طرح گرفتار کیا گیا اور ان کا سٹاف باہر ان کا انتظار کرتا رہا اس سے پنجابی کا محاورہ ‘‘ٹانگہ آ گیا کچہریوں خالی’’ یاد آ گیا اور پھر اس کے بعد جس طرح انہیں استعفیٰ وزیراعلیٰ کو پیش کرنا پڑ گیا اس پر بہت کچھ ہے جو عبرت کا سامان ہے۔ اس ہائی پروفائل گرفتاری کے بہت اثرات ہونگے۔ ‘‘بڑی گرفتاری’’ بڑی گرفتاریوں کا پیش خیمہ تو نہیں ؟۔
تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین کچھ بھی کہیں مگر یہ کریڈٹ بھی اس جماعت کا ہے کہ اس کے حاضر سروس وزرا کو بھی احتسابی عمل میں جیل یاترا کرنی پڑ سکتی ہے، ضیا ﷲ آفریدی اور اب علیم خان اس کی مثال ہیں۔ اس گرفتاری کا دوسرا زاویہ یہ بھی ہے کہ ایسے ریکارڈ اور مبینہ مشکوک معاشی پس منظر رکھنے والے افراد انصاف کی اس تحریک میں فیصلہ سازی کے عہدوں پر کیسے پہنچے ؟ وزیراعظم خواہ اس کا کریڈٹ لیتے رہیں اور علیم خان کی لڑائی استعفیٰ میں بیان کرتے رہیں مگر لوگ جانتے ہیں علیم خان عمران خان کی جماعت کا مالیاتی انجن تھے اور ان کے مخالفین انہیں عمران خان کی اے ٹی ایم کہتے تھے، اگر ان کے اثاثے آمدن سے زائد ہیں تو پھر ہمیں سوچنا ہے کہ ہمارے کپتان سے کہاں غلطی ہوئی ہے۔ صوبے میں اس کے اثرات لازماً ہونگے۔ ایک زاویہ تو شفافیت اور اپنے اختیارات کو اپنے مفادات کیلئے استعمال نہ کرنے اور پکڑ کا احساس صوبائی کابینہ میں بڑھے گا اور دوسرا زاویہ یہ ہے کہ مبینہ کرپشن کا پس منظر رکھنے والے وزرا، ایم پی ایز خصوصاً ق لیگ کی صف اول کی قیادت اگلا نشانہ بن سکتی ہے۔
ن لیگ تو پہلے ہی احتساب کے گرم پانیوں میں اپنا احتسابی سفر طے کر رہی ہے ۔ بہر حال اس گرفتاری سے پنجاب میں متبادل وزیراعلیٰ کی بحث ختم ہوگی ۔ اور مزید احتسابی صورتحال بڑھی اور ق لیگ کے کیمپ کا رخ کیا تو نہ صرف پنجاب بلکہ وفاق بھی اس سے لڑکھڑا سکتا ہے۔ دوسرا اہم سوال علیم خان کے استعفیٰ کا فوری آ جانا ہے۔ پاکستانی سیاسی تاریخ میں اقتدار میں مستعفی ہو جانے کی روایت کم از کم ہمیں کم ہی یاد ہے۔ لگ یہی رہا ہے کہ تحریک انصاف کو پیشگی اس کی خبر تھی اور شاید فوری استعفیٰ اسی ہوم ورک کا نتیجہ ہے۔ اس استعفیٰ کا کریڈٹ لینا ہے تو پھر اس گرفتاری سے شرمندگی اور پشیمانی بھی تحریک انصاف نے ضرور اٹھانی ہے۔ ملک میں یکطرفہ احتساب کے تاثر کو زائل کرنے کیلئے تحریک انصاف علیم خان کے استعفیٰ کو ایک مثال کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ علیم خان چونکہ صوبائی رکن پارلیمان بھی ہیں تو ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کیلئے صوبائی اسمبلی پہلے ہی قانون سازی کر چکی ہے۔ شہباز شریف کے بعد اب علیم خان بھی احتساب اور اقتدار دونوں کا مزہ چکھتے رہیں گے۔
علیم خان کی ہائی پروفائل گرفتاری اب بتا رہی ہے کہ احتساب کا شکنجہ مزید سخت ہو جائیگا۔ علیم خان کی گرفتاری ایک بڑے کریک ڈاؤن کا پتا دے رہی ہے جس میں اپوزیشن کی صفیں تتر بتر ہونگی۔ سیاستدانوں پر بحیثیت ایک طبقہ بھاری ذمہ داری ہے کہ بدعنوانی اور لوٹ مار کے باب کو اپنے طور پربند کریں، اپنی صفوں میں سیاسی ورکروں کو جگہ دیں اور جدوجہد اور نظریے کو بنیاد بنائیں تاکہ اقتدار میں مفادات کا ٹکراؤ ختم ہو سکے وگرنہ احتساب کے نام پر جھاڑو پھرتا رہے گا۔