لاہور: (دنیا کامران خان کیساتھ) سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری سندھ کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ پروگرام’ دنیا کامران خان کے ساتھ‘ میں میزبان نے اپنے تجزیے میں کہا کہ پی پی سمجھ گئی ہے کہ نیب مقدمات کا جو سلسلہ شروع ہونا تھا اس کا آغاز ہوگیا۔ یہ سلسلہ اب آگے بڑھ رہا ہے۔ سپیکر سندھ اسمبلی کی گرفتاری پر ایک سیاسی طوفان بنتا نظر آرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آغا سراج درانی کو اسلام آباد کے سیرینا ہوٹل سے گرفتار کر کے کراچی منتقل کر دیا گیا ہے، انہیں تفتیش کے لئے نیب کراچی کے حوالے کیا جائے گا۔
میزبان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جعلی بینک اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کیس میں زرداری، فریال تالپور، بلاول، مراد علی شاہ اور اومنی گروپ نیب کو جواب دیں گے۔ میزبان نے جے آئی ٹی اور نیب ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا کہ ان کی تحقیقات کا فوکس دبئی میں وہ معاملات ہیں جو اومنی گروپ چلاتی تھی۔ اومنی گروپ اور آصف علی زرداری کے یہ معاملات دبئی میں در اصل چار بھارتی باشندے سنبھالتے تھے، وہاں کا مرکزی نظام اشیش مہتہ نامی ایک بھارتی شخص چلاتا تھا، ایک اور بھارتی باشندے ڈیوڈ کوہلین کا بھی اس حوالے سے اہم کردار ہے، اس کے علاوہ جارج نامی بھارتی سے متعلق معلومات ملی ہیں کہ دبئی کے راستے دیگر جگہوں پر بھیجے جانے والے کروڑوں اربوں کی رقوم کا وہ مرکزی کردار تھا۔
میزبان کے مطابق تفتیش کا دائرہ آصف علی زرداری، فریال تالپور، بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ تک پھیلے گا۔ اس معاملے کو سیاسی رخ دیا جا رہا ہے، آغا سراج درانی کی گرفتاری کو پی پی نے جمہوریت پر حملہ قرار دیا۔ سندھ کابینہ کا ایک خصوصی اجلاس بھی ہوا، اجلاس کے بعد کابینہ کے اراکین اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنما قافلے کی صورت میں ڈیفنس سوسائٹی میں آغا سراج درانی کے گھر پہنچے اور وہاں دھرنا دیا، اس حوالے سے دنیا نیوز کے نمائندے نے میزبان کو بتایا کہ ان میں اکثریت صوبائی وزرا کی ہے، اس وفد کی قیادت سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے کی، تاہم وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نہیں آئے، نیب کی ٹیم شام 4 بجے سے گھر کے اندر تلاشی لے رہی ہے۔ سکیورٹی کے لئے رینجرز بھی موجود ہیں، وزیر اعلیٰ نے آج سندھ اسمبلی میں پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی طلب کر لیا۔ اس وقت صوبائی اسمبلی کا اجلاس 27 فروری تک ملتوی ہے، 22 فروری کو اجلاس طلب کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے تاکہ سراج درانی کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے جاسکیں، پیپلز پارٹی نے اس حوالے سے بھرپور احتجاج کی حکمت عملی بنائی ہے۔
میزبان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے لئے یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس سلسلے میں آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے میڈیا سے گفتگو کی ہے، بلاول نے لندن میں گفتگو کے دوران یہ نہیں بتایا کہ وہ کب پاکستان واپس آئیں گے یا نہیں، شاید وہ فوری طور پر واپس نہ آئیں، آصف زرداری کی میڈیا سے گفتگو میں کوشش تھی کہ یہ ظاہر ہو کہ وہ بالکل نارمل ہیں، وہ صحافیوں کے سوالوں کا خوش اخلاقی سے جواب دے رہے تھے، ان کی کوشش تھی کہ سنجیدہ سوالوں کا بھی مزاحیہ انداز میں جواب دیں۔ آصف زرداری کی اداؤں سے ظاہر تھا کہ وہ ماحول کو بھانپ رہے ہیں، بلاول کا نام بھی اس تحقیقات میں شامل ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ نیب ان سے بھی پوچھ گچھ کرنا چاہے گا، دیکھنا یہ ہے کہ بلاول بھٹو یورپ سے پاکستان کب واپس آتے ہیں۔