مستقبل کی سیاست، کیا ممکنات ہیں ؟

Last Updated On 12 March,2019 09:48 am

لاہور: (دنیا کامران خان کے ساتھ) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی کوٹ لکھپت جیل میں قید سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات پاکستان کے سیاسی ماحول میں انتہائی اہم پیش رفت ہے، بلاول بھٹو نے نواز شریف کی عیادت اور سیاسی تعاون بڑھانے پر مشاورت کی، اس طرح بلاول بھٹو زرداری نے میثاق جمہوریت کو پھر سے زندہ کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں میں دلچسپ مکالمہ ہوا، بلاول بھٹو زرداری نے نواز شریف کو سندھ میں علاج کرانے کی بھی پیشکش کی اور کہا میاں صاحب، آپ تین بار کے وزیر اعظم ہیں، آپ کو زیادہ دیر قید نہیں رکھا جاسکتا۔ امید ہے آپ سے اگلی ملاقات جیل سے باہر ہو گی نواز شریف نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہ بھی کہہ دیں کہ ملاقات جلد سے جلد ہو گی۔ نواز شریف نے علاج کی پیشکش پر کہا کہ حکومت اجازت دے تو علاج وہ خود بھی کراسکتے ہیں۔ میں نے آرٹیکل 62، 63 ختم کرنے کی پیشکش ٹھکرا کر غلطی کی تھی۔ ہم سے غلطیاں ہوتی ہیں، اب مزید غلطیوں کی گنجائش نہیں ہے۔

بلاول بھٹو نے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف کے عزم کی تعریف کی اور کہا کہ انھیں نہیں لگتا کہ کوئی ڈیل ہو رہی ہے۔ بلاول نواز ملاقات کے سیاسی مضمرات کے حوالے سے ممتاز صحافی، سینئر تجزیہ کار عارف نظامی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ملک کی چوٹی کی جماعتیں ہیں، دونوں رہنماؤں نے ایک گھنٹے کی ملاقات میں صرف موسم پر تو گفتگو نہیں کی ہوگی۔ نواز شریف تکنیکی طور پر کالعدم ہیں لیکن در اصل وہی مسلم لیگ ن کے روح رواں ہیں۔ بلاول نے خود بتایا ہے کہ اس ملاقات میں میثاق جمہوریت کی بات بھی ہوئی ہے، دونوں جماعتوں میں تعاون مزید بڑھے گا اور یہ تال میل پارلیمنٹ کے اندر ہی بڑھے گا، دونوں جماعتیں اس قسم کی پوزیشن اختیار کریں گی کہ اگر انہیں سڑکوں پر آنا پڑے تو وہ شاید تیار ہو جائیں۔ لگتا ہے کہ دونوں جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں، عمران خان کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ بطور وزیر اعظم اسٹیبلشمنٹ کے نمائندہ ہیں اس لئے وہ ایک حد سے آگے نہیں جائیں گی البتہ اقتصادی صورتحال کی مزید خرابی سے انکے لئے کچھ کرنے کا موقع میسر آسکتا ہے۔

سینئر تجزیہ کار عارف نظامی نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان اور اسد عمر نے بلاول بھٹو پر جو تنقید کی ہے، یہ بلاول کو ایک قسم کا خراج تحسین ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو اس سے پہلے اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا تھا، شیخ رشید بلاول کو بلو رانی اور اس قسم کے القابات سے نوازتے تھے لیکن اب توپوں کا رخ بلاول کی طرف ہوگیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ منی لانڈرنگ کیس میں آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت کی منسوخی یا گرفتاری کی صورت میں بلاول بھرپور سیاسی کردار ادا کریں گے، اس لئے ان کو ٹارگٹ کیا جانے لگا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں بلاول اور مریم نواز شریف کی ملاقات بھی ہوسکتی ہے۔ مریم نواز نے ٹویٹ کی صورت میں بلاول کا شکریہ ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف بھی خاموش ہیں، مریم نواز نے بھی منہ پر ٹیپ لگا رکھی ہے۔ آصف زرداری سے حال ہی میں میری ملاقات ہوئی ہے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے لوگوں کا خیال ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے نتیجے میں انہیں ایسا ماحول مل جائے گا کہ معاملات سڑکوں پر بھی جاسکتے ہیں۔

ممتاز صحافی عارف نظامی نے مزید کہا کہ حالیہ ملاقات زرداری اور فریال تالپور کی ممکنہ گرفتاری کی صورت میں سیاسی پیش بندی بھی ہے اور فطری بھی ہے۔ آصف زرداری تھوڑے متنازعہ بھی ہیں، ان کی صحت بھی پہلے جیسی نہیں رہی اوران کے گرد حصار تنگ کیا جا رہا ہے اس لئے بلاول کو لا محالہ آنا ہی پڑے گا۔ اسی طرح شاید مریم نواز سامنے آئیں اور نواز شریف کی جگہ لیں لیکن بعض تجزیہ کاروں کے مطابق شہباز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین انڈرسٹینڈنگ ہوچکی ہے، اور اس بات کا امکان ہے کہ شہباز شریف کو استعمال کیا جائے اور اگر عمران خان فیل ہوتے ہیں تو ان کو آگے لایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ مستقبل قریب میں کسی بڑے الائنس یا حکومت کے خلاف تحریک کا امکان نہیں ہے لیکن اس کو رد بھی نہیں کرسکتے کیونکہ مولانا فضل الرحمان بار بار دھرنا دینے کی بات کر رہے ہیں۔ آصف زرداری اور فریال تالپور کی گرفتاری پر صورتحال یکدم بدل جائے گی۔
 

Advertisement