لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) سابق صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں نیب کے سامنے اپنے ابتدائی بیانات ریکارڈ کروا دیئے ہیں۔ نیب نے آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو دو ہفتوں میں جوابات جمع کروانے کی ہدایت کی ہے۔ پارک لین کمپنی سمیت دیگر دو کیسز میں بھی انہیں سوالنامے جاری کئے گئے ہیں۔ اور انہیں جوابات دس دن کے اندر فراہم کرنے کو کہا گیا ہے۔
زرداری اور بلاول کی پیشی کے مو قع پر نیب ہیڈکوارٹرز کے باہر پیپلز پارٹی کے کارکن بڑی تعداد میں موجود تھے جو انتظامیہ کی طرف سے کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے سکیورٹی حصار توڑ کر نیب ہیڈ کوارٹرز پہنچے۔ اس عمل کے دوران پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور گرفتاریاں بھی کیں۔ پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کی جانب سے اپنے خلاف کرپشن کے مقدمات پر احتجاجی صورتحال کیوں طاری کی گئی۔ پیپلز پارٹی اپنی سیاسی طاقت کو بروئے کار لا کر کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔ احتجاج کا آپشن حکومت اور نیب کو دباؤ میں لانے میں کس حد تک کارگر ہوگا۔ ملک میں جاری احتسابی عمل کے ذریعہ سیاسی قیادت کو بتدریج ختم کیا جا رہا ہے۔ کیا نیب اپنے ان مقاصد میں کامیاب رہے گا ؟۔
ملک میں جاری احتسابی عمل کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ تاثر ابھر کر سامنے آتا ہے کہ ملک میں جاری احتساب کے عمل کے اپنے مقاصد ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ کے سیاسی کردار کو ختم نہ کر سکنے کے باعث ملک کے اندر ایک ایسی فضا طاری کر دی گئی ہے کہ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قومی قیادت کو ایک خاص ایجنڈے کے تحت احتساب کا شکنجہ کس کر ان کی سیاست کا گھلا گھونٹ دیا جائے۔ مگر اس ساری صورتحال سے قطع نظر کہا جائے تو اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک میں فوجی آمریت کے ادوار ہوں یا جمہوری وقفے کی حکومتیں ہوں، کرپشن اور لوٹ مار، بدعنوانی اور بری طرزِ حکمرانی اس ملک کے صفِ اوّل کے مسائل ہیں۔ سیاسی حکومتوں کے ادوار میں سیاسی قوتیں اپنے اراکین کو اس حد تک کھلی چھوٹ دے ڈالتی ہیں کہ ہر سطح پر ہمیں میرٹ اور غیر جانبدارانہ پالیسی پامال ہوتی نظر آتی ہے۔
در حقیقت یہی وجوہات ہوتی ہیں جو ملک میں جمہوریت کو عدم استحکام سے دو چار کرتی ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب عوام اپنے شب و روز سے پریشان منتخب حکومتوں سے لا تعلق ہو جاتے ہیں اور غیر جمہوری طاقتیں سیاستدانوں کیلئے تخت کو تختہ بنا دیتی ہیں اور عوام اس کھیل میں بظاہر خاموش تماشائی کی طرح دیکھتی رہتی ہیں۔ زرداری کے خلاف جو کرپشن کی فضا اور مسٹر ٹین پرسنٹ کے نعرے ماضی میں دریافت کئے گئے تھے اس سے نتائج تو کچھ برآمد نہ ہو سکے ماسوائے آصف زرداری کی ذاتی شہرت کو داغدار کرنے کے کیونکہ تمام مقدمات بہر حال عدالتوں سے ختم ہوئے۔ لگ یہی رہا ہے کہ زرداری کے احتساب کا دوسرا مرحلہ بھی ان کی سیاست سے بیدخلی کی جانب جا رہا ہے۔ مگر یہ احتساب بھی اپنی ان آئینی کمزوریوں کو دہرا رہا ہے جن کو ہم نے نواز شریف کے احتساب کے وقت دیکھا ہے۔ اس احتساب میں پیپلز پارٹی اور درپردہ پی پی مخالف قوتیں ایک دوسرے سے خوب مخاطب ہیں۔
اب پیپلز پارٹی اس معرکے میں اپنے کارکنوں کو بھی جھونک رہی ہے تا کہ عوام میں بہر حال اپنا ایک سیاسی کیس بھی بنایا جائے۔ یہ لڑائی اگر بڑھی تو پھر بلاول کی سیاست کیلئے فیصلہ کن موڑ ہوگا۔ اس لڑائی میں اگر عوام نے پیپلز پارٹی کی آواز پر کان نہ دھرے تو پھر بلاول کی مستقبل کی سیاست کمزور پڑ جائیگی اور اگر عوام نے زمین پر بلاول کا ساتھ دیا تو پھر بلاول سیاست کے اس امتحان میں سرخرو ہو جائیگا۔ آصف زرداری تو چونکہ اپنی سیاست کر چکے ہیں اور اپنا ذاتی تاثر کرپشن کے حوالے سے داغدار بھی کرا چکے ہیں۔ اگر اب زرداری کا سیاست میں مستقبل بلاول بھٹو ہی ہیں تو دیکھنا یہ ہوگا کہ اب بلاول میں ایک جانب عوام کو بیدار کرنے کی صلاحیت کتنی ہے اور دوسری طرف کرپشن اور لوٹ مار کے مبینہ زرداری بوجھ کو ڈھونے کا حوصلہ کتنا ہے ؟ بہر حال یہ طے ہے کہ یہ محض کرپشن کا سیدھا سادھا کیس نہیں ہے ۔ اس کے سیاسی فوائد اور نقصانات بھی ہیں۔
یہ صرف زرداری اور نیب کا نہیں بلکہ پسِ پردہ چھپے فریقین کا بھی کیس ہے جو نواز شریف کے بعد اب آصف زرداری پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں، جہاں تک بلاول کے سیاسی مستقبل کا سوال ہے تو انہوں نے ڈرائنگ روم کی سیاست کے بجائے فرنٹ فٹ پر کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ انکے اس کردار کو پذیرائی تو بہت ملے گی لیکن بلاول کو اپنی والدہ بینظیر کے انجام سے بھی خبردار رہنا پڑے گا۔ کیونکہ بی بی شہید بعض ایسی قوتوں سے الجھ بیٹھی تھیں جن سے الجھ کر انہیں ایک قیمت ادا کرنا پڑی جس سے تاریخ میں ان کا کردار تو زندہ رہا مگر ملک ایک نڈر لیڈرسے محروم ہو گیا۔