لاہور: (دنیا نیوز) نواز شریف کو عدالتی حکم کے بعد جیل سے رہائی مل گئی، کوٹ لکھپت جیل کے باہر پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں نے اپنے قائد کا والہانہ استقبال کیا۔
عدالتی احکامات موصول ہونے پر جیل انتظامیہ نے سابق وزیراعظم کو رہا کیا، جیل کے باہر لیگی کارکنوں کی بڑی تعدا د موجود تھی، نواز شریف جیسے ہی باہر آئے تو کارکنوں بھرپور نعربازی کی، نواز شریف نے ہاتھ ہلا کر کارکنوں کا شکریہ ادا کیا۔
نواز شریف 30 گاڑیوں پر قافلے کے ساتھ جیل سے اپنی رہائش گاہ جاتی امرا پہنچے، وہاں بھی کارکنوں کا جوش و جذبہ دیدنی تھا، کارکنوں نے اپنے قائد کی گاڑی کو گھیر لیا اور اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں، ڈھول کی تھاپ اور پارٹی ترانوں پر خوب رقص کیا، نواز شریف نے ہاتھ ہلا کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دیا جس کے بعد سابق وزیراعظم اپنی رہائش گاہ کے اندر چلے گئے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر 6 ہفتے کے لئے ضمانت منظور کرتے ہوئے انھیں 50 لاکھ کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
چیف جسٹس آصف سعید کهوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ نواز شریف ملک نہیں چھوڑ سکیں گے، وہ 6 ہفتے میں اپنی مرضی کا علاج کرا سکیں گے، نواز شریف 6 ہفتے بعد سرنڈر کریں گے، سرنڈر نہ کرنے پر گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔
سماعت شروع ہوئی تو وکیل خواجہ حارث کی جانب سے نواز شریف کے غیر ملکی ڈاکٹر لارنس کے خط کی مصدقہ کاپی عدالت میں پیش کی گئی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا یہ خط عدنان نامی شخص کے نام لکھا گیا ہے، ڈاکٹر لارنس کا یہ خط عدالت کے نام نہیں لکھا گیا، اس خط کی قانونی حیثیت کیا ہو گی؟ اس کے مصدقہ ہونے کا ثبوت نہیں، یہ خط ایک پرائیویٹ شخص نے دوسرے پرائیویٹ شخص کو لکھا ہے، آپ نے میرٹ کی بنیاد پر دائر پٹیشن واپس لے لی تھی۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا نواز شریف کی صحت کا معاملہ بعد میں سامنے آیا، ان کی صحت کا جائزہ لینے کیلئے 5 میڈیکل بورڈ بنے، پانچوں میڈیکل بورڈز نے ان کو ہسپتال داخل کرانے کی سفارش کی، میڈیکل بورڈز نے سفارش کی کہ نواز شریف کو علاج کی ضرورت ہے، 30 جنوری کو پی آئی سی بورڈ نے بڑے میڈیکل بورڈ بنانے کی تجویز دی، میڈیکل بورڈ نے ایک سے زائد بیماریوں کے علاج کی سہولت والے ہسپتال میں داخلے کا کہا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا پروفیسر زبیر نے نواز شریف کی اینجیو گرافی کو ماہر امراض گردہ کی کلیئرنس سے مشروط کیا۔ نواز شریف کی ذیابیطس اور ہائپرٹینشن کی مانیٹرنگ کی بھی ضرورت ہے۔ ان کی نئی رپورٹ اگرچہ متنازع ہو گئی ہے مگر گردوں کا مسئلہ بڑھ گیا ہے۔ نواز شریف کے گردوں کی بیماری تیسرے مرحلے پر ہے۔ اگلے مرحلے پر ڈائیلاسز اور اس سے اگلے مرحلے پر گردے فیل ہو سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کرتے ہوئے کہا ڈاکٹر لارنس کے خط کے علاوہ ہمارے سامنے کچھ نہیں، کیا ہم ایک خط پر انحصار کر لیں؟ جس پر وکیل نے کہا یہ ڈاکٹر نواز شریف کا علاج کرتا رہا ہے، اس کا خط مصدقہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف کی طبعیت خراب ہو گئی ہے۔ نواز شریف کی بیماری کے ثبوت میں ایک خط پیش کیا جا رہا ہے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ مریض 15 سال سے بیمار ہے۔ آپ کی بنیاد ہے کہ نواز شریف کی صحت اب خراب ہو رہی ہے۔ نواز شریف نے بیماری کے دوران بہت مصروف زندگی گزاری۔
نیب کے وکیل جہانزیب بھروانہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا نواز شریف کی اپیل حتمی دلائل کے لئے مقرر ہو چکی ہے۔ نیب نواز شریف کی سزا میں اضافے کی درخواست دے چکا ہے۔ نواز شریف کی 24 گھنٹے مانیٹرنگ کی جا رہی ہے، ان کی زندگی کو خطرہ نہیں ہے۔ نواز شریف کی اینجیو گرافی پاکستان میں ہو سکتی ہے۔ ہسپتالوں میں جدید ترین سہولتیں موجود ہیں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا نیب کے سارے ملزم بیمار کیوں ہو جاتے ہیں؟ نیب اتنے ارب روپے ریکور کرتا ہے ایک اچھا ہسپتال ہی بنا لے۔
چیف جسٹس نے اسد منیر کی مبینہ خود کشی سے متعلق ریمارکس دیتے ہوئے کہا لگتا ہے نیب ملزمان کو ذہنی دباؤ زیادہ دیتا ہے۔ نیب رویے کی وجہ سے لوگ خود کشی کرنے لگ گئے ہیں۔ ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا جو کچھ دیر بعد سنا دیا گیا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو طبی بنیادوں پر دی جانے والی ضمانت کا تحریری فیصلہ جاری کیا گیا جو 4 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے تحریر کیا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ علاج کیلئے مختصر مدت کیلئے ضمانت کی استدعا مناسب ہے۔ نواز شریف دوران ضمانت پاکستان میں کہیں سے بھی علاج کروا سکتے ہیں۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دوران ضمانت ہائیکورٹ سے اپیل خارج ہوئی تو نواز شریف کی گرفتاری کا فیصلہ عدالت عالیہ کریگی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ چھ ہفتے بعدان کی ضمانت ازخود منسوخ ہو جائے گی۔ چھ ہفتے بعد نواز شریف نے خود کو قانون کے حوالے نہ کیا تو گرفتار کیا جائے۔ ضمانت میں توسیع کے ہمراہ سرنڈر کرنا قابل قبول نہیں ہوگا۔
یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت مسترد کی۔ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا تھا کہ نواز شریف طبی بنیادوں پر ضمانت کے مستحق نہیں ہیں۔ جمع کرائی گئی میڈیکل رپورٹ میں نواز شریف کی جان کو خطرات لاحق نہیں تھے۔ یہ کیس غیر معمولی حالات کا نہیں بنتا۔ نواز شریف کے معاملے میں مخصوص حالات ثابت نہیں ہوئے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کے باعث ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ نواز شریف کو علاج معالجے کی سہولتیں دستیاب ہیں۔
واضح رہے 8 ستمبر 2017ء کو نواز شریف اور ان کے بچوں کیخلاف العزیزیہ، فلیگ شپ، ایون فیلڈ ریفرنسز دائر ہوئے۔ 19 اکتوبر 2017ء کو العزیزیہ اور 20 اکتوبر کو فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف پر فرد جرم عائد ہوئی۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10، مریم نواز کو 7 اور محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا ہوئی۔ ستمبر 2018ء کو ایون فیلڈ ریفرنس میں تینوں کی سزاؤں کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر دیا تھا۔ 24 دسمبر 2018ء کو العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید کی سزا ہوئی۔ عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کو بری کیا تھا۔