لاہور: (روزنامہ دنیا) پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جو سالانہ لاکھوں ٹن گندم اور چاول بیرونی ممالک کو فروخت کرتے ہیں لیکن جنوبی ایشیا میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں ہر دوسرا بچہ غذائیت کی کمی کا شکار ہے۔ ملک میں 44 فیصد بچوں کو غذائیت کی کمی کا سامنا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ایسے پاکستانی بچوں کی مجموعی تعداد کروڑوں میں بنتی ہے۔
آبادی اور صحت سے متعلقہ امور کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں بہت زیادہ شرح پیدائش، غربت، غذائیت کے مسئلے، خواندگی کی غیر تسلی بخش شرح اور بہت زیادہ مہنگائی سمیت کئی امور ایسے ہیں، جن کے فوری حل تلاش کیے جانا چاہیں۔ خاص طور پر اس لئے کہ یہ سب عوامل مل کر پاکستان کی نئی نسل کو مسلسل غیر صحت مند بناتے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں غذائیت کی کمی کے شکار بچوں کی شرح پورے جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان کے قومی ادارہ صحت اور برطانیہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق آبادی کے لحاظ سے دنیا کے اس چھٹے سب سے بڑے ملک میں چوالیس فیصد بچوں کو غذائیت کی کمی کا سامنا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ایسے پاکستانی بچوں کی مجموعی تعداد کروڑوں میں بنتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر صرف چھ ماہ سے لے کر تیس ماہ تک کی عمر کے بچوں کی مثال لی جائے ، تو ان میں غذائیت کی کمی کی شرح پچاسی فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس عمر کے شیر خوار بچوں میں سے صرف پندرہ فیصد بچوں کو کافی غذائیت والی خوراک دستیاب ہوتی ہے۔ پاکستان کی بیس کروڑ سے زائد کی آبادی میں غربت یا بہت زیادہ غربت کے شکار شہریوں کی شرح بھی کافی زیادہ ہے۔ کئی ملین گھرانوں میں بچے بھی کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں تاکہ اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے میں خاندان کے سربراہ کی مدد کر سکیں۔ جن خاندانوں میں پیٹ بھر کر تین وقت کے کھانے کی دستیابی بھی مسئلہ ہو، وہاں کسی کو کھانے کی غذائیت پر توجہ دینے کی ضرورت کہاں محسوس ہو سکتی ہے؟۔
اس بارے میں اسلام آباد میں ماہر غذائیات ڈاکٹر احسان اللہ کا کہنا ہے کہ انسانی صحت کے لیے ایسی غذا ضروری ہوتی ہے، جو متوازن ہو اور جسم کو ایسی غذائیت دے، جس کی مدد سے مدافعتی نظام مضبوط ہو اور ممکنہ بیماریوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ انسانی جسم میں پٹھوں، خون کی رگوں، ریشوں اور ہڈیوں، سب کی اپنی اپنی غذائی ضروریات ہوتی ہیں۔ ان کی نشو و نما کے لیے صرف توانائی یا کیلوریز ہی نہیں بلکہ کیلشیم، پروٹینز، نشاستہ، معدنیات اور امراض سے بچاؤ کے لیے وٹامنز وغیرہ سب درکار ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق غذائیت کی کمی چھوٹے بچوں کی غیر تسلی بخش نشو و نما میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اکثر والدین کو خوراک اور غذائیت میں فرق کا علم ہی نہیں۔ جس کے پاس خوراک ہی کافی نہیں، وہ غذائیت کے بارے میں کیسے سوچے گا ؟ اور جس کے پاس کافی خوراک ہے ، وہ نہیں جانتا کہ صحت مند کھانے کا مطلب زیادہ کھانا نہیں ہوتا بلکہ بہتر غذائیت والی خوراک ہوتا ہے۔ عام والدین یہ سمجھتے ہیں کہ بچے کی بہتر نشو ونما کے لیے بس پیٹ بھر کر کھانا لازمی ہوتا ہے، حالانکہ بہتر صحت کے لیے خوراک سے زیادہ اہم اس کی غذائیت ہوتی ہے۔ غذائیت کی کمی کے شکار پاکستانی بچوں میں وہ بھی ہوتے ہیں، جو کم خوراکی کا شکار ہوتے ہیں اور وہ بھی جو خوش خوراک تو ہوتے ہیں لیکن جنہیں کم غذائیت کا سامنا پھر بھی رہتا ہے۔ کم غذائیت کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچوں کے خون میں نشاستے، نمکیات اور کولیسٹرول کی سطح غیر متوازن ہو جاتی ہے۔
کم غذائیت کے مسئلہ پر بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن ارشد محمود کہتے ہیں کہ انیس سو نوے میں بھی اس حوالے صورت حال کافی خراب تھی۔ پھر دو ہزار گیارہ میں ایک نیشنل نیوٹریشن سروے کرایا گیا تو ثابت ہوا تھا کہ قریب پینتالیس فیصد بچے غذائیت کی کمی کا شکار تھے۔ اب گزشتہ چند برسوں سے صوبائی حکومتوں نے ایک کثیرالجہتی غذائی حکمت عملی اپنائی تو ہے لیکن وہ بھی ناکافی ہے۔ ارشد محمود کے مطابق اس پالیسی پر بھی ترجیحی بنیادوں پر کام نہیں کیا جا رہا۔ سرکاری بجٹ میں فنڈز کی کمی اتنی ہے کہ جو مالی وسائل دستیاب ہوتے ہیں، وہ بھی زیادہ تر ڈونر فنڈنگ کے تحت ہی جاری کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بچوں اور بڑوں دونوں میں غذائیت کی کمی کے کئی محرکات ہیں۔ ان میں محرومی، غربت، ناخواندگی، سماجی رویے اور کم عمری کی شادیاں سبھی کچھ شامل ہے۔ ایک طرف عام لوگوں کو خوراک اور غذائیت کے فرق تک کا علم نہیں تو دوسری طرف کئی علاقوں، خاص کر خیبر پختونخوا اور سندھ جیسے صوبوں میں بچیوں کی شادیاں کم عمری میں ہی کر دی جاتی ہیں۔ تو جو بچیاں خود کم خوراکی یا کم غذائیت کا شکار رہی ہوں یا شادی کے بعد بھی ہوں، وہ صحت مند بچوں کو کیسے جنم دے سکتی ہیں؟۔
راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال کی امراض زچہ و بچہ کے شعبے کی سینئر گائناکالوجسٹ ڈاکٹر فرحت ارشد کا کہنا ہے کہ بچوں کے غذائیت سے متعلق مسائل حل کرنے کے لیے پہلے خواتین پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ اچھی اور صحت مند خوراک سے کسی بھی خاتون میں بیماریوں کے خلاف مدافعت پیدا ہوتی ہے ۔ اس کے حمل اور زچگی کے مراحل صحت مندی سے گزرتے ہیں۔ ماں صحت مند ہو گی تو بچہ بھی صحت مند ہو گا۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی صحت پر توجہ کم دی جاتی ہے، حالانکہ اگلی نسل کی صحت مندی میں ماں کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ پاکستانی عورتوں میں یہ بہت غلط رجحان بھی زور پکڑ چکا ہے کہ ان میں سے بہت سی اپنے بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتیں۔ نوجوان مائیں ڈبے کے یا بازاری دودھ پر انحصار کرنے لگی ہیں۔ حالانکہ اگر کوئی ماں شروع کے کم از کم چھ ماہ تک بچے کو اپنا دودھ پلائے تو شیر خوار بچہ غذائیت کی کمی کا شکار بھی بالکل نہیں ہو گا اور کئی بیماریوں کے خلاف اس کا جسمانی مدافعتی نظام بھی بہت بہتر ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی حاملہ عورت کے لیے صحت مند خوراک انتہائی ضروری ہوتی ہے ۔ لیکن پاکستان میں بہت سی نوجوان حاملہ خواتین کو خون کی کمی کا سامنا بھی رہتا ہے ۔ اس میں غربت کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ سندھ میں تھر کے علاقے کی صورتحال سب سے زیادہ تشویشناک ہے ۔ گزشتہ برس تھر میں غذائیت کی شدید کمی کے باعث پانچ سو بچے موت کے منہ میں چلے گئے تھے ۔