لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات میں مہنگائی کی سنگین صورتحال اور عوام کو اس سے نجات کیلئے تبادلہ خیال ہوا، وہ اگلے ایک دو روز میں سابق صدر آصف زرداری سے بھی ملاقات کریں گے۔ انہوں نے حکومت مخالف اپنے ملین مارچ کا ذکر بھی کیا۔ لیکن بڑی جماعتوں نے حکومت کیخلاف کسی بڑی تحریک کا عندیہ نہیں دیا۔ سیاستدانوں کے درمیان عیادت اور تیمارداری کا تعلق بھی سیاست سے ہوتا ہے اور اس وقت مولانا فضل الرحمن حکومت سے زیادہ زخمی نظر آتے ہیں اور وہ ہر اس شخص اور جماعت کے پاس جانے کو تیار ہیں جو عمران خان کی حکومت کے خلاف عملاً جدوجہد پر یقین رکھتا ہو۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف زرداری بھی حکومت کو گھر بھجوانے کا عزم ظاہر کرتے نظر آ رہے ہیں، مگر ملک کی بڑی اور اہم جماعت مسلم لیگ ن ابھی فی الحال دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن ہے۔ مسلم لیگ ن کے سنجیدہ حلقے اور خصوصاً مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے حوالے سے یہ آرا سامنے آ رہی ہیں کہ اپوزیشن خصوصاً مسلم لیگ ن کی جانب سے کسی احتجاجی عمل کے نہ ہونے کے باعث آج حکومت اپنی کارکردگی کے حوالے سے پھنسی نظر آ رہی ہے اور ہر سطح پر لوگ نئی حکومت، اس کی پالیسیوں اور اس کی تبدیلی کے عمل کو کوستے نظر آتے ہیں اور خصوصاً وہ لوگ جنہوں نے عمران خان اور ان کی حکومت سے بڑی توقعات قائم کی تھیں وہ بھی غلطی کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر حکومت کے خلاف دباؤ بڑھایا جاتا ہے یا احتجاج کی کال دی جاتی ہے تو پھر ملک بھر میں لوگوں میں حکومت اپنی کارکردگی بارے تقسیم ہو گی ،یہ انتشار حکومت کو کم نقصان پہنچائے گا۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں بجٹ تک انتظار کیا جائے۔
ایسی ہی کیفیت پیپلز پارٹی کی ہے، وہ اسلام آباد لانگ مارچ تک کی بات کرتی نظر آتی ہے مگر عملاً ابھی میدان میں اترنے سے گریزاں ہے۔ سندھ میں اس کے ٹرین مارچ کو اچھی سیاسی مشق تو قرار دیا جا سکتا ہے مگر وہ قومی سطح پر حکومت کے خلاف دباؤ بڑھانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی لہٰذا مذکورہ صورتحال کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ بڑی جماعتیں کسی بڑی تحریک یا جدوجہد کے موڈ میں نہیں اور سمجھتی ہیں کہ فی الحال حکومت کو ڈرانے، دھمکانے اور دباؤ میں لانے کیلئے بیانات کے گولے چلانے پر اکتفا کیا جائے۔ عملاً میدان میں نہ آیا جائے اور ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ عوام حکومت کو کوستے تو نظر آ رہے ہیں مگر ابھی باہر سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنے سے گریزاں ہیں، موسمی درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ احتجاجی تحریک کے امکانات زیادہ روشن نہیں ہوتے البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں کسی بڑے عوامی رد عمل اور ایشوز پر احتجاج کا دارومدار وزیر خزانہ اسد عمر اور ان کی پالیسیوں پر ہے۔ وہ کام جو اپوزیشن جماعتیں اپنے بیانات، اعلانات اور احتجاج سے منتخب حکومتوں کے خلاف کرتی ہیں وہ کام حکومت میں موجود اسد عمر ہی کرتے جا رہے ہیں۔
جہاں تک مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان مفاہمتی عمل پر یکسوئی کا نہ ہونا ہے تو ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں کی لیڈر شپ کو کرپشن، منی لانڈرنگ، جعلی بینک اکاؤنٹس سمیت بڑے مقدمات کا سامنا ہے ۔ انہیں اپنی پڑی ہوئی ہے اور وہ ان سے نکلنے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ حالات کسی احتجاجی تحریک کے نکتہ پر آ گئے ہیں تو فی الحال اس سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ یہ درست ہے کہ عوام مہنگائی زدہ اور حکومتی کارکردگی سے نکو نک ہیں مگر فی الحال وہ سڑکوں پر آنے کو تیار نہیں اور ویسے بھی انہیں اس صورتحال میں کوئی نجات دہندہ نظر نہیں آ رہا کیونکہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی اپنی ساکھ اچھی نہیں اور عمران خان کی جانب سے ان دونوں جماعتوں کی لیڈر شپ کو عوامی سطح پر گندا کرنے اور مائنس ون کی پالیسی کو چلانے کی مہم کے اثرات ضرور ہوئے مگر خود ان کے نجات دہندہ بننے اور متبادل کا خواب بھی کارگر نہیں ہوا جس کے باعث عوام ایک مایوسی، بے چینی کی کیفیت میں مبتلا ‘‘کسے رہنما کرے کوئی’’ کی کیفیت سے دو چار ہیں، البتہ یہ ضرور ہے کہ حکومت کو ابھی تک کچھ اداروں کی غیر علانیہ حمایت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ انکے ذمہ داران حکومت کے پاؤں اکھڑنے کے باوجود یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ہمیں اداروں کی حمایت حاصل ہے۔
جہاں تک حکومت کے معاشی ویژن کا سوال ہے تو پالیسیوں سے لگتا ہے کہ وہ خود گومگو سے دو چار ہے ۔ اس کی بڑی وجہ زر مبادلہ میں کمی اور ملک پر قرضوں کا بوجھ ہے جب سے حکومت بنی ہے ڈیفالٹ کا خطرہ موجود ہے۔ دوست ممالک کی مدد سے مشکل وقت تو ٹل گیا مگر بحرانی کیفیت ختم نہیں ہوئی۔ چار ہزار ارب ٹیکس جمع ہوتا ہے تو دو سو ارب سود کی ادائیگی اور قرضوں پر اٹھ جاتا ہے۔ خطہ میں پیدا شدہ صورتحال کے باعث دفاع پر اضافی اخراجات ہو رہے ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ کے تحت پچیس سو ارب صوبے لے جاتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ غصہ اور انتقام کا شکار ہونے کے بجائے حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیار کرے ۔ اس میں ملک و قوم اور خود اس کا اپنا بھلا ہے۔